یعنی پہلے مریم بنے، پھر خود ہی حاملہ ہوئے، پھر اپنے پیٹ سے آپ عیسیٰ ابن مریم بن کر تولد ہوگئے۔ اس کے بعد یہ مشکل پیش آئی کہ عیسیٰ ابن مریم کا نزول تو احادیث کی رو سے دمشق میں ہونا تھا۔ جو کئی ہزاربرس سے شام کا ایک مشہور ومعروف مقام ہے اور آج بھی دنیا کے نقشے پر اسی نام سے موجود ہے۔ یہ مشکل ایک دوسری پر لطف تاویل سے یوں رفع کی گئی۔
’’واضع ہو کہ دمشق کے لفظ کی تعبیر میں میرے پر من جانب اﷲ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس جگہ ایسے قصبے کا نام دمشق رکھاگیا ہے۔ جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزیدی الطبع اور یزید پلید کی عادات اور خیالات کے پیرو ہیں۔ یہ قصبہ قادیان بوجہ اس کے کہ اکثر یزیدی الطبع لوگ اس میں سکونت رکھتے ہیں۔ دمشق سے ایک مشابہت اور مناسبت رکھتا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۷۲ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۱۳۸)
پھر ایک اور الجھن باقی یہ رہ گئی کہ احادیث کی رو سے ابن مریم کو ایک سفید منارہ کے پاس اترنا تھا۔ چنانچہ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ مسیح صاحب نے آکر اپنا منارہ خود بنوا لیا۔ اب اسے کون دیکھتا ہے کہ احادیث کی رو سے منارہ وہاں ابن مریم کے نزول سے پہلے موجود ہونا چاہئے تھا اور یہاں وہ مسیح موعود صاحب کی تشریف آوری کے بعد تعمیر کیاگیا۔
آخری اور زبردست الجھن یہ تھی کہ احادیث کی رو سے تو عیسیٰ ابن مریم کو لد کے دروازے پر دجال کو قتل کرنا تھا۔ اس مشکل کو رفع کرنے کی فکر میں پہلے طرح طرح کی تاویلیں کی گئیں۔ کبھی تسلیم کیاگیا کہ: ’’لد بیت المقدس کے دیہات میں سے ایک گاؤن کا نام ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۲۲۰، خزائن ج۳ ص۲۰۹)
پھر کہاگیا کہ: ’’لد ان لوگوں کو کہتے ہیں جو بے جا جھگڑا کرنے والے ہوں۔ جب دجال کے بیجا جھگڑے کمال تک پہنچ جائیں گے۔ تب مسیح موعود ظہور کرے گا اور اس کے تمام جھگڑوں کا خاتمہ کر دے گا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۳۰، خزائن ج۳ ص۴۹۳)
لیکن جب اس سے بھی بات نہ بنی تو صاف کہہ دیا گیا کہ: ’’لد سے مراد لدھیانہ ہے۔‘‘ اور اس کے دروازے پر دجال کے قتل سے مراد یہ ہے کہ اشراء کی مخالفت کے باوجود وہیں سب سے پہلے مرزاقادیانی کے ہاتھ پر بیعت ہوئی۔ (الہدیٰ ص۹۱ حاشیہ، خزائن ج۱۸ ص۳۴۱)
ان تاویلات کو جو شخص بھی کھلی آنکھوں سے دیکھے گا۔ اسے معلوم ہو جائے گا کہ یہ جھوٹے بہروپ کا صریح ارتکاب ہے جو علی الاعلان کیاگیا ہے۔