شخص اس کی سابق صدارت کا بھی انکار کر دے۔ کیونکہ یہ ان تمام کاموں کے جواز کو چیلنج کرنے کا ہم معنی ہوگا۔ جو اس کے دور صدارت میں انجام پائے تھے۔ ان دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت بھی نہ ہو تو بجائے خود سابق صدر کی آمد آئینی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتی۔ یہی معاملہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کا بھی ہے کہ ان کے محض آجانے سے ختم نبوت نہیں ٹوٹتی۔ البتہ اگر وہ آکر پھر نبوت کا منصب سنبھال لیں اور فرائض نبوت انجام دینے شروع کر دیں یا کوئی شخص ان کی سابق نبوت کا بھی انکار کر دے تو اس سے اﷲتعالیٰ کے آئین نبوت کی خلاف ورزی لازم آئے گی۔ احادیث نے پوری وضاحت کے ساتھ دونوں صورتوں کا سدباب کر دیا ہے۔ ایک طرف وہ تصریح کرتی ہیں کہ محمدﷺ کے بعد کوئی نبوت نہیں ہے اور دوسری طرف وہ خبر دیتی ہیں کہ عیسیٰ ابن مریم دوبارہ نازل ہوں گے۔ اس سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ ان کی یہ آمد ثانی منصب نبوت کے فرائض انجام دینے کے لئے نہ ہوگی۔
اسی طرح ان کی آمد سے مسلمانوں کے اندر کفر وایمان کا بھی کوئی نیا سوال پیدا نہ ہوگا۔ ان کی سابقہ نبوت پر تو آج بھی اگر کوئی ایمان نہ لائے تو کافر ہو جائے۔ محمدﷺ خود ان کی اس نبوت پر ایمان رکھتے تھے اور آپﷺ کی ساری امت ابتداء سے ان کی مؤمن ہے۔ یہی حیثیت اس وقت بھی ہوگی۔ مسلمان کسی تازہ نبوت پر ایمان نہ لائیں گے۔ بلکہ عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی سابقہ نبوت ہی پر ایمان رکھیں گے۔ جس طرح آج رکھتے ہیں۔ یہ چیز نہ آج ختم نبوت کے خلاف ہے نہ اس وقت ہوگی۔
آخری بات جو ان احادیث سے اور بکثرت دوسری احادیث سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ دجال، جس کے فتنہ عظیم کا استیصال کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو بھیجا جائے گا۔ یہودیوں میں سے ہوگا اور اپنے آپ کو مسیح کی حیثیت سے پیش کرے گا۔ اس معاملے کی حقیقت کوئی شخص نہیں سمجھ سکتا۔ جب تک وہ یہودیوں کی تاریخ سے اور ان کے مذہبی تصورات سے واقف نہ ہو۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد جب بنی اسرائیل پے درپے تنزل کی حالت میں مبتلا ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ آخر کار بابل اور اسیریا کی سلطنتوں نے ان کو غلام بنا کر زمین میں تتربتر کر دیا تو انبیائے بنی اسرائیل نے ان کو خوشخبری دینی شروع کی کہ خدا کی طرف سے ایک ’’مسیح‘‘ آنے والا ہے۔ جو ان کو اس ذلت سے نجات دلائے گا۔ ان پیشین گوئیوں کی بناء پر یہودی ایک مسیح کی آمد کے متوقع تھے۔ جو بادشاہ ہوکر، لڑکر ملک فتح کرے۔ بنی اسرائیل کو ملک ملک سے لاکر فلسطین میں جمع کر دے اور ان کی ایک زبردست