نبی ہیں… اگر کہا جائے کہ آپ کے بعد عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا ذکر احادیث میں آیا ہے تو ہم کہیں گے کہ ہاں آیا ہے۔ مگر وہ محمدﷺ کے تابع ہوں گے۔ کیونکہ ان کی شریعت تو منسوخ ہوچکی ہے۔ اس لئے نہ ان کی طرف وحی ہوگی اور نہ وہ احکام مقرر کریں گے۔ بلکہ وہ رسول اﷲﷺ کے نائب کی حیثیت سے کام کریں گے۔} (طبع مصر ص۱۳۵)
اور یہی بات علامہ آلوسی تفسیر روح المعانی میں کہتے ہیں: ’’ثم انہ علیہ السلام حین ینزل باق علیٰ نبوتہ السابقۃ لم یعزل عنہا بحال لکنہ لا یتعبد بہا لنسخہا فی حقہ وحق غیرہ وتکلیفہ باحکام ہذا الشریعۃ اصلاً وفرعاً فلا یکون الیہ علیہ السلام وحی ولا نصب احکام بل یکون خلیفۃ الرسول اﷲﷺ وحاکما من حکام ملتہ بین امۃ‘‘ {پھر عیسیٰ علیہ السلام جب نازل ہوں گے تو وہ اپنی سابق نبوت پر باقی ہوں گے۔ بہرحال اس سے معزول تو نہ ہو جائیں گے۔ مگر وہ اپنی پچھلی شریعت کے پیرو نہ ہوں گے۔ کیونکہ وہ ان کے اور دوسرے سب لوگوں کے حق میں منسوخ ہوچکی ہے اور اب وہ اصول اور فروع میں اس شریعت کی پیروی پرمکلف ہوں گے۔ لہٰذا ان پر نہ اب وحی آئے گی اور نہ انہیں احکام مقرر کرنے کا اختیار ہوگا۔ بلکہ وہ رسول اﷲﷺ کے نائب اور آپ کی امت میں ملت محمدیہﷺ کے حاکموں میں سے ایک حاکم کی حیثیت سے کام کریں گے۔}
(تفسیر روح المانی ج۲۲ ص۳۲)
امام رازیؒ اس بات کو اور زیادہ وضاحت کے ساتھ اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’انتہا الانبیاء الیٰ مبعث محمدﷺ فعند مبعثہ انتہت تلک المدۃ فلا یبعد ان یصیر (ای عیسیٰ ابن مریم) بعد نزولہ تبعاً لمحمدﷺ‘‘ {انبیاء کا دور محمدﷺ کی بعثت تک تھا۔ جب آپﷺ مبعوث ہوگئے تو انبیاء کی آمد کا زمانہ ختم ہوگیا۔ اب یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہونے کے بعد محمدﷺ کے تابع ہوں گے۔}
(تفسیر کبیر ج۳ ص۳۴۳)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آنا بلاتشبیہ اسی نوعیت کا ہوگا۔ جیسے ایک صدر ریاست کے دور میں کوئی سابق صدر آئے اور وقت کے صدر کی ماتحتی میں مملکت کی کوئی خدمت انجام دے۔ ایک معمولی سمجھ بوجھ کا آدمی بھی یہ بات بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ ایک صدر کے دور میں کسی سابق صدر کے محض آجانے سے آئین نہیں ٹوٹتا۔ البتہ دو صورتوں میں آئین کی خلاف ورزی لازم آتی ہے۔ ایک یہ کہ سابق صدر آکر پھر سے فرائض صدارت سنبھالنے کی کوشش کرے۔ دوسرے یہ کہ کوئی