اترنے والے ہیں۔ پس جب تم ان کو دیکھو تو پہچان لینا اور ایک میانہ قد آدمی ہیں۔ رنگ مائل بہ سرخی وسپیدی ہے۔ دو زردرنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہوں گے۔ ان کے سر کے بال ایسے ہوں گے۔ گویا اب ان سے پانی ٹپکنے والا ہے۔ حالانکہ وہ بھیگے ہوئے نہ ہوں گے۔ وہ اسلام پر لوگوں سے جنگ کریں گے۔ صلیب کو پاش پاش کر دیں گے۔ خنزیر کو قتل کردیں گے۔ جزیہ ختم کر دیں گے اور اﷲتعالیٰ ان کے زمانے میں اسلام کے سوا تمام ملتوں کو مٹادے گا اور وہ مسیح دجال کو ہلاک کر دیں گے اور زمین میں وہ چالیس سال ٹھہریں گے۔ پھر ان کا انتقال ہو جائے گا اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔} (مسند احمد ج۲ ص۴۳۷)
۷… ’’عن جابر بن عبداﷲ قال سمعت رسول اﷲﷺ فینزل عیسیٰ بن مریم علیہ السلام فیقول امیرہم تعال فصل فیقول لا ان بعضکم علیٰ بعض امراء تکرمۃ اﷲ ہذہ الامۃ‘‘ {حضرت جابر بن عبداﷲ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ سے سنا کہ پھر عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے۔ مسلمانوں کا امیر ان سے کہے گا کہ آئیے۔ آپ نماز پڑھائیے۔ مگر وہ کہیں گے کہ نہیں تم لوگ خود ہی ایک دوسرے کے امیر ہو۔ (یعنی تمہارا امیر خود تم ہی میں سے ہونا چاہئے) یہ وہ اس عزت کا لحاظ کرتے ہوئے کہیں گے۔ جو اﷲ نے اس امت کو دی ہے۔} (مسلم، بیان نزول عیسیٰ ابن مریم، مسند احمد ج۳ ص۳۴۵)
۸… ’’عن جابر بن عبداﷲ (فی قصۃ ابن صیاد) فقال عمر بن الخطاب اذٔن لی فاقتلہ یا رسول اﷲ فقال رسول اﷲﷺ ان یکن ہو فلست صاحبہ انما صاحبہ عیسیٰ ابن مریم علیہ الصلوٰۃ والسلام وان لا یکن فلیس لک ان تقتل رجلا من اہل العہد‘‘ {جابر بن عبداﷲ (قصہ ابن صیاد کے سلسلہ میں) روایت کرتے ہیں کہ پھر عمر بن خطاب نے عرض کیا۔ یا رسول اﷲ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اسے قتل کردوں۔ اس پر رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ وہی شخص (یعنی دجال) ہے تو اس کے قتل کرنے والے تم نہیں ہو۔ بلکہ اسے تو عیسیٰ ابن مریم ہی قتل کریں گے اور اگر یہ وہ شخص نہیں ہے تو تمہیں اہل عہد (یعنی ذمیوں) میں سے ایک آدمی کو قتل کر دینے کا کوئی حق نہیں ہے۔}
(مسند احمد ج۳ ص۲۶۸)
۹… ’’عن جابر بن عبداﷲ (فی قصۃ الدجال) فاذاہم بعیسیٰ ابن مریم علیہ السلام فتقام الصلوٰۃ فیقال لہ تقدم یا روح اﷲ فیقول لیتقدم امامکم فلیصل بکم فاذا صلی صلوٰۃ الصبح خرجوا الیہ قال فحین یری