اسیر ہوئے تو فی الواقع ان کو غلام بنایا گیا۔ چنانچہ انہی میں سے ایک لونڈی حضرت علیؓ کے حصے میں آئی۔ جس کے بطن سے تاریخ اسلام کی مشہور شخصیت محمد بن حنیفہ نے جنم لیا۔ (البدایہ والنہایہ ج۶ ص۳۱۶،۳۲۵)
اس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ صحابہؓ نے جس جرم کی بناء پر ان سے جنگ کی تھی۔ وہ بغاوت کا جرم نہ تھا۔ بلکہ یہ جرم تھا کہ ایک شخص نے محمدﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا اور دوسرے لوگ اس کی نبوت پر ایمان لائے۔ یہ کاروائی حضورﷺ کی وفات کے فوراً بعد ہوئی ہے۔ ابوبکرؓ کی قیادت میں ہوئی ہے اور صحابہؓ کی پوری جماعت کے اتفاق سے ہوئی ہے۔ اجماع صحابہؓ کی اس سے زیادہ صریح مثال شاید ہی کوئی اور ہو۔
اجماع علمائے امت
اجماع صحابہؓ کے بعد چوتھے نمبر پر مسائل دین میں جس چیز کو حجت کی حیثیت حاصل ہے وہ دور صحابہؓ کے بعد علمائے امت کا اجماع ہے۔ اس لحاظ سے جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پہلی صدی سے لے کر آج تک ہر زمانے کے، اور پوری دنیائے اسلام میں ہر ملک کے علماء اس عقیدے پر متفق ہیں کہ محمدﷺ کے بعد کوئی شخص نبی نہیں ہوسکتا اور یہ کہ جو بھی آپؐ کے بعد اس منصب کا دعویٰ کرے یا اس کو مانے۔ وہ کافر خارج از ملت اسلام ہے۔ اس سلسلہ کے چند شواہد ملاحظہ ہوں۔
۱… امام ابوحنیفہؒ (۸۰ھ) کے زمانے میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور کہا: ’’مجھے موقع دو کہ میں اپنی نبوت کی علامات پیش کردوں۔‘‘
اس پر امام اعظمؒ نے فرمایا کہ: ’’جو شخص اس سے نبوت کی کوئی علامت طلب کرے گا وہ بھی کافر ہو جائے گا۔ کیونکہ رسول اﷲﷺ فرماچکے ہیں کہ لا نبی بعدی‘‘
(مناقب الامام الاعظم ابی حنفیہ لابن احمد المکی ج۱ ص۱۶۱، مطبوعہ حیدرآباد ۱۳۲۱ھ)
۲… علامہ ابن جریر طبری (۲۲۴ھ، ۳۱۰ھ) اپنی مشہور تفسیر قرآن میں آیت ’’ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین‘‘ کا مطلب بیان کرتے ہیں۔ ’’الذی ختم النبوۃ فطبع علیہا فلا تفتح لاحد بعدہ الیٰ قیام الساعۃ‘‘ جس نے نبوت کو ختم کر دیا اور اس پر مہر لگادی۔ اب قیامت تک یہ دروازہ کسی کے لئے نہیں کھلے گا۔ (تفسیر ابن جریر ج۲۲ ص۱۶)
۳… امام طحاوی (۲۳۹ھ، ۳۲۱ھ) اپنی کتاب ’’عقیدہ سلفیہ‘‘ میں سلف صالحین اور خصوصاً امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف اور امام محمد رحمہم اﷲ کے عقائد بیان کرتے ہوئے نبوت کے بارے میں