ہیں کہ آپﷺ کے بعد نبی آتے رہیں گے۔ البتہ فضیلت کے اعتبار سے آپﷺ آخری نبی ہیں اور آپﷺ کی مسجد آخری مسجد ہے۔ لیکن درحقیقت اس طرح کی تاویلیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ یہ لوگ خدا اور رسول کے کلام کو سمجھنے کی اہلیّت سے محروم ہوچکے ہیں۔ صحیح مسلم کے جس مقام پر یہ حدیث وارد ہوئی ہے۔ اس سلسلے کی تمام احادیث کو ایک نظر ہی آدمی دیکھ لے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ حضورﷺ نے اپنی مسجد کو آخری مسجد کس معنی میں فرمایا ہے؟ اس مقام پر حضرت ابوہریرہؓ، حضرت عبداﷲ بن عمرؓ اور ام المؤمنین حضرت میمونہؓ کے حوالہ سے جو روایات امام مسلم نے نقل کی ہیں۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں صرف تین مساجد ایسی ہیں جن کو عام مساجد پر فضیلت حاصل ہے۔ جن میں نماز پڑھنا دوسری مساجد میں نماز پڑھنے سے ہزارگنا زیادہ ثواب رکھتا ہے اور اسی بناء پر صرف انہی تین مسجدوں میں نماز پڑھنے کے لئے سفر کر کے جانا جائز ہے۔ باقی کسی مسجد کا یہ حق نہیں ہے کہ آدمی دوسری مسجدوں کوچھوڑ کر خاص طور پر اس میں نماز پڑھنے کے لئے سفر کرے۔ ان میں سب سے پہلی مسجد الحرام ہے۔ جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بنایا تھا۔ دوسری مسجد، مسجد اقصیٰ ہے جسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا اور تیسری مسجد، مدینہ طیبہ کی مسجد نبوی ہے جس کی بناء حضور نبی کریمﷺ نے رکھی۔ حضورﷺ کے ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ اب چونکہ میرے بعدکوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔ اس لئے میری اس مسجد کے بعد دنیا میں کوئی چوتھی مسجد ایسی بننے والی نہیں ہے۔ جس میں نماز پڑھنے کا ثواب دوسری مسجدوں سے زیادہ ہو اور جس کی طرف نماز کی غرض سے سفر کر کے جانا درست ہو۔
یہ احادیث بکثرت صحابہؓ نے نبیﷺ سے روایت کی ہیں اور بکثرت محدثین نے ان کو بہت سی قوی سندوں سے نقل کیا ہے۔ ان کے مطالعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضورﷺ نے مختلف مواقع پر مختلف طریقوں سے مختلف الفاظ میں اس امر کی تصریح فرمائی ہے کہ آپؐ آخری نبی ہیں۔ آپؐ کے بعد نبی آنے والا نہیں ہے۔ نبوت کا سلسلہ آپ پر ختم ہوچکا ہے اور آپؐ کے بعد جو لوگ بھی رسول یا نبی ہونے کا دعویٰ کریں۔ وہ دجال وکذاب ہیں۔ قرآن کے الفاظ ’’خاتم النبیین‘‘ کی اس سے زیادہ مستند ومعتبر اور قطعی الثبوت تشریح اور کیا ہوسکتی ہے۔ رسول پاکﷺ کا ارشاد تو بجائے خود سند وحجت ہے۔ مگر جب وہ قرآن کی ایک نص کی شرح کر رہا ہو۔ تب تو وہ اور بھی زیادہ قوی حجت بن جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ محمد رسول اﷲﷺ سے بڑھ کر قرآن کو سمجھنے والا اور اس کی تفسیر کا حقدار کون ہوسکتا ہے کہ وہ ختم نبوت کا کوئی دوسرا مفہوم بیان کرے اور ہم اسے قبول کرنا تو کیا معنی، قابل التفات بھی سمجھیں؟