گویا آپ کے خیال میں حضرت مرزا صاحب نے قرآن کریم کو اپنے منہ کی باتیں کہا ہے۔ یہ بھی سراسر ناجائز اتہام ہے۔ کیونکہ خود حضرت مرزاصاحب نے فرمایا ہے۔ یہ میرا لہام ہے۔ گو یہاں اختلاف ضمائر ہے۔ جس کی مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں اور میرے منہ کی باتیں دراصل اﷲتعالیٰ کا کلام ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ قرآن مجید واقعی خدا کے منہ کی باتیں ہیں۔ کیا ہمارے مدمقابل کو یاد نہیں کہ سورۂ فاتحہ میں ’’ایاک نعبد‘‘ آیا ہے تو اب اگر کوئی دشمن اسلام یہ اعتراض کرے کہ دیکھو جی یہ خدا کا کلام ہے اور خدا گویا محمد رسول اﷲ کو یہ کہتا ہے کہ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں تو جس طرح اس دشمن کا یہ اعتراض بیہودہ ہے۔ اسی طرح پہلا اعتراض بھی بالکل غلط ہے۔
آپ نے بڑی خوشی منائی ہے کہ سورۂ جمعہ کے لفظ آخرین سے ہم نے حضرت مرزاصاحب کو آخری نبی مان لیا ہے۔ ہمارے مدمقابل کو آخرین فتح الخاء اور آخرین بکسر الخاء کا فرق بھی معلوم نہیں اور آگئے ہیں گھر سے مناظرہ کرنے۔
ہمارے مدمقابل نے تعریض کی ہے کہ مشکوٰۃ شریف کا حاشیہ کیوں پیش کیاگیا ہے۔ حالانکہ حاشیہ پر مشکوٰۃکی شرح مرقاۃ کی عبارت ہے۔ جو حضرت امام ملا علی قاری کی تحریر ہے جو اہل سنت والجماعت کے بہت بڑے امام ہیں۔ فارسی الاصل ہونے کے متعلق حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا یہ حوالہ قابل غور ہے۔ آپ فرماتے ہیں: ’’اس عاجز کا خاندان دراصل فارسی ہے نہ مغلیہ۔ نہ معلوم کس غلطی سے مغلیہ خاندان کے ساتھ مشہور ہوگیا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۷۸، خزائن ج۱۸ ص۸۱ حاشیہ)
آپ لکھتے ہیں صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول کریمﷺ نے اپنے نام سے رسول اﷲ کا لفظ اس لئے کاٹ دیا تھا کہ مکہ والے آپ کو مانتے نہیں تھے۔ ہمارا سوال تو یہ ہے کہ حضرت مرزاصاحب نے بھی تو اپنی تحریرات میں لفظ نبی کو کاٹنے کی اجازت اسی لئے دی ہے تاکہ یہ لوگوں کو ناگوار گزرتا تھا۔ ان لوگوں کو جو آپ کو نہیں مانتے تھے۔ تو اگر اتنی سی بات سے حضرت مرزاصاحب کا دعویٰ نبوت سے رجوع ثابت ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ آپ کا اصرار ہے جو مرزاقادیانی کو نہیں مانتے تو کفار مکہ کو بھی یہ حق پہنچتا تھا کہ وہ سمجھیں کہ رسول اﷲﷺ نے بھی رسالت سے رجوع کر لیا ہے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ لوگوں سے بہت زیادہ انصاف پسند اور منصف مزاج تھے… کیونکہ انہوں نے ایسا خیال نہیں کیا بحالیکہ آپ اپنے اصرار سے باز نہیں آرہے۔