دین کو تازہ کرنے والے کے ہیں۔ اسی لئے خدا کا ہر نبی اور رسول بدرجۂ اولیٰ مجدد ہوتا ہے اور حضرت رسول مقبولﷺ مجدد اعظم ہیں۔
ہمارے مدمقابل نے ہم سے پوچھا ہے کہ نوح علیہ السلام کی کشتی میں سوار ہونے والے تو سب بچ گئے تھے۔ کیا قادیان میں رہنے والے بھی سب کے سب طاعون سے بچ گئے؟ معلوم ہوا ہے کہ ہمارے مقابلے میں آنے والے صاحب ادھار کھائے بیٹھے تھے کہ آج کوئی بات بھی وہ حق پرستی کی نہیں کریں گے۔ حضرات مرزاصاحب نے اپنے مکان کو، نہ کہ سارے قادیان کو کشتی نوح بتایا تھا اور ہمارا دعویٰ ہے اور دنیا جانتی ہے کہ اﷲ کے فضل سے آپ کے مکان میں آپ کی چاردیواری کے اندر کبھی کسی کو طاعون نہیں ہوئی۔
ہمارے مدمقابل نے حضرت مرزاصاحب کی کتاب (اربعین نمبر۳ ص۵) کے حوالے کی بنیاد پر مرزاصاحب کی طرف یہ بات منسوب کی ہے کہ آپ کے نزدیک تیئس سالہ میعاد مدعی نبوت کے لئے مقرر کی گئی ہے۔ یہ اتنی بڑی غلط بیانی ہے کہ ہم کو بے اختیار یہ ضرب المثل یاد آگئی کہ ؎
چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد
حضرت مرزاصاحب کی یہ کتاب شائع شدہ ہے اور ہر شخص اس کا مطالعہ کر سکتا ہے۔ مگر ہمارے مدمقابل کے پیش کردہ حوالے میں حضرت مرزاصاحب کا خیال نہیں بلکہ کسی حافظ محمد یوسف صاحب کا خیال بیان کیاگیا ہے۔ جو اس قرآنی معیار کی رو سے محمد رسول اﷲﷺ کو بھی سچا ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔
ہمیں تعجب ہے کہ ہمارے مدمقابل کس دیدہ دلیری اور جرأت کے ساتھ غلط باتیں ہماری طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ ہم نے ہرگز نہیں لکھا کہ کفار مکہ آنحضرتﷺ کا آسمان پر جانا ممکن تسلیم کرتے تھے۔ بلکہ ہم نے تو یہ لکھا ہے کہ انہیں آپ کا آسمان پر جانا مسلم نہ تھا۔ اسی لئے وہ بے دلیل آپ کے اس دعوے کو ماننے کے لئے تیار نہ تھے کہ آپ کہہ دیں کہ میں آسمان پر گیا تھا اور ان کے اس مطالبے کے جواب میں اﷲتعالیٰ نے بھی یہی جواب دیا ہے کہ بشر اور رسول آسمان پر نہیں جاسکتا۔ جس سے ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا استدلال کیا تھا اور ہمارے مدمقابل اس کا کوئی جواب نہ دے سکے۔
آپ نے لکھاہے کہ مرزاقادیانی کا الہام ہے: ’’قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں۔‘‘