کر گزریں ان کے لئے ممکن ہے ؎
مجھ کو کیا تم سے گلہ ہو کہ مرے دشمن ہو
جب یونہی کرتے چلے آئے ہو تم پیروں سے
ہم قبل ازیں معیار صداقت کی دلیل کے طور پر یہ امر پیش کر چکے ہیں کہ اﷲتعالیٰ کبھی بھی جھوٹوں کو ترقیات نہیں دیا کرتا اور نہ ہی انہیں لاکھوں کی جانثار جماعت عطا کیا کرتا ہے۔ نہ ان کی جماعتیں لمبے عرصے تک قائم رہا کرتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود نے اسی قرآنی معیار پر دوسرے مذاہب کے انبیاء کو پرکھا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ’’پس یہ اصول نہایت پیار اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کی مدد دینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے۔ خواہ ہند میں ظاہر ہوئے یا فارس میں یا چین میں یا کسی اور ملک میں اور خدا نے کروڑہا دنوں میں ان کی عزت اور عظمت بٹھا دی اور ان کے مذہب کی جڑ قائم کر دی اور کئی صدیوں تک وہ مذہب چلا آیا۔ یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھایا۔ اسی اصول کے لحاظ سے ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو جن کی سوانح اس تعریف کے نیچے آگئی ہیں۔ عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ گووہ ہندوؤں کے مذہب کے پیشوا ہوں یا عیسائیوں کے مذہب کے۔ مگر افسوس کہ ہمارے مخالف ہم سے یہ برتاؤ نہیں کرتے اور خدا کا یہ پاک اور غیرمتبدل قانون ان کو یاد نہیں کہ وہ جھوٹے نبی کو وہ برکت اور عزت نہیں دیتا جو سچے کو دیتا ہے اور جھوٹے نبی کا مذہب جڑ نہیں پکڑتا اور نہ عمر پاتا ہے۔‘‘ (تحفہ قیصریہ ص۶)
حضرات! ہمارے مدمقابل نے ہمارے پیش کردہ دلائل جو قرآن مجید اور احادیث سے پیش کئے گئے ہیں کو توڑنے کی کوشش نہیں کی۔ صرف ادھر ادھر کی باتوں میں کاغذ سیاہ کئے ہیں۔
آپ نے کہا ہے کہ تم نے مرزاقادیانی کو اصل مقام سے نیچے اتار کر مجدد بنادیا۔ حالانکہ ہم نے آج اپنے سب سے پہلے پرچے میں حضرت مرزاصاحب کا یہ دعویٰ پیش کیا تھا کہ آپ اس زمانے کے مجدد ہیں۔ نیز پہلے بزرگوں نے بھی آنے والے مہدی اور مسیح کو مجدد اور مجتہد کہا ہے۔ جیسا کہ لکھا ہے: ’’اگر ظہور مہدی علیہ السلام ونزول عیسیٰ صورت گرفت پس ایشاں مجدد ومجتہد باشند۔‘‘ (حجج الکرامہ ص۱۳۹)
اب کیا اس حوالے کا یہ مطلب ہے کہ اس کتاب کے بزرگ مصنف نے حضرت امام مہدی اور مسیح علیہ السلام کو مہدویت اور عیسویت سے نیچے اتار کر مجدد بنا دیا ہے۔ مجدد کے معنی تو