اسی طرح نواب صدیق حسن خاں صاحب نے اپنی کتاب (حجج الکرامہ ص۴۱،۳۹۴، ۳۹۵) پر یہی لکھا ہے کہ مہدی کو تیرھویں صدی میں ظاہر ہو جانا چاہئے۔ پھر لکھتے ہیں: ’’اس حساب سے ظہور مہدی علیہ السلام کا تیرھویں صدی پر ہونا چاہئے تھا۔ مگر یہ صدی پوری گزر گئی تو مہدی نہ آئے۔ اب چودھویں صدی ہمارے سر پر آتی ہے۔ اس صدی سے اس کتاب کے لکھنے تک چھ ماہ گزر چکے ہیں۔ شاید اﷲتعالیٰ اپنا فضل وعدل ورحم وکرم فرمائے۔ چار چھ سال کے اندر مہدی ظاہر ہو جاویں۔‘‘ (اقتراب الساعۃ ص۲۲۱)
حضرات! یہ حوالہ قابل غور ہے۔ گویا آج سے ۷۷برس پہلے مہدی کو ظاہر ہو جانا چاہئے تھا۔ مگر ہمارے مدمقابل اب تک بھی ظہور مہدی کو تسلیم کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
۱۴… خسوف وکسوف: حضرت رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ آخری زمانے میں ماہ رمضان میں چاند گہن کی راتوں میں سے پہلی رات کو چاند گہن اور سورج گہن کے دنوں میں سے درمیانی دن کو سورج گہن ہوگااور یہ مہدی کا نشان ہوگا۔ یعنی اس وقت مہدی موجود ہوگا۔ یہ گہن ۱۸۹۴ء میں وقوع میں آچکا ہے۔ اس وقت سوائے بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے کوئی دوسرا مدعی میدان میں موجود نہ تھا۔ (حجج الکرامہ ص۳۴۴)
۱۵… حضرت رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ آخری زمانے میں جب اسلام کا صرف نام اور قرآن کا صرف رسم رہ جائے گا اور علمائے زمانہ بدترین خلائق ہو جائیں گے۔ مسجدیں ہدایت سے خالی ہو جائیں۔ وہ تو دین اسلام کو تازہ کرنے کے لئے ایک مجدد برپا ہوگا۔ الفاظ یہ ہیں: ’’ان اﷲ یبعث لہٰذہ الامۃ علی رأس کل مائۃ سنۃ من یجددلہا دینہا‘‘
(مشکوٰۃ ص۳۶، کتاب العلم، مشکوٰۃ ص۳۸، کتاب العلم) کہ اﷲتعالیٰ امت محمدی کی بھلائی کے لئے ہر سو سال کے شروع میں مجدد بھیجا کرے گا تاکہ وہ دین کو تازہ کر دیا کریں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہر صدی کے سر پر ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں اور چودھویں صدی کے سر پر سوائے بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے اور کوئی میدان میں نہیں آیا۔
۱۶… قرآن مجید نے ہمیں یہ اصل بتایا ہے کہ ہر صادق مبعوث ہونے کے بعد اﷲ کے گزشتہ رسولوں کی تصدیق کیا کرتا ہے۔ چنانچہ یہ کام بھی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے باحسن وجوہ سرانجام دیا ہے۔ قرآن مجید میں لکھا ہے کہ ہر قوم میں نبی آئے ہیں: ’’وان من امۃ الا خلافیہا نذیر (فاطر)‘‘
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اسی آیت کی روشنی میں حضرت کرشن اور حضرت رامچندر