اے کہ می داری تو برد لہا نظر
اے کہ از تونیست چیزے مستتر
گرتومی بینی مرا پر فسق وشر
گرتودیداستی کہ ہستم بدگہر
پارہ پارہ کن من بد کار را
شاد کن ایں زمرہ اغیار را
آتش افشاں بردر ودیوار من
دشمنم باش وتبہ کن کار من
ور مرا از بند گانت یافتی
قبلۂ من آستانت یافتی
دردل من آں محبت دیدۂ
کز جہاں آں راز را پوشیدۂ
بامن ازروئے محبت کارکن
اند کے افشائے آں اسرار کن
(حقیقت المہدی ودرثمین فارسی)
۵… قرآن مجید میں لکھا ہے: ’’فانجینہ واصحب السفینۃ وجعلنہا آیۃ للعلمین (عنکبوت)‘‘ یعنی حضرت نوح علیہ السلام کا کشتی میں بیٹھ کر طوفان نوح سے نجات پاجانا اور باقی لوگوں کا غرق ہو جانا، حضرت نوح علیہ السلام کی سچائی کی دلیل ہے۔ اسی طرح حضرت مرزاصاحب کا الہام ہے: ’’انی احافظ کل من فی الدار واحافظک خاصۃ‘‘
(تذکرہ ص۵۱۸)
جس کا مطلب یہ ہے کہ تیرے گھر کی چاردیواری کے اندر رہنے والے طاعون سے بچائے جائیں گے اور تو بھی طاعون سے محفوظ رہے گا۔ گویا اﷲتعالیٰ نے آپ کے گھر کو نوح علیہ السلام کی کشتی بنادیا۔ نوح علیہ السلام کشتی میں بیٹھ کر طوفان نوح سے بچ گئے تھے اور حضرت مرزاصاحب پر ایمان لانے والے آپ کے مکان میں رہ کر طاعون سے محفوظ ہوگئے۔ حضرت مسیح موعود نے اپنی کتاب (دافع البلاء ص۱۸، خزائن ج۱۸ ص۲۳۸ ملخص) پر لکھا ہے ۔ جس کا مفاد یہ ہے کہ اگر کوئی مرد میدان ہے۔ تو میری طرح قبل از وقت اپنے مقام کے طاعون سے محفوظ رہنے کی پیشین گوئی کرے۔ پھر اگر وہ مقام سب سے پہلے طاعون میں مبتلا نہ ہو تو میں جھوٹا ہوں۔
۶… قرآن مجید میں بڑی کثرت کے ساتھ یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ جھوٹے کبھی کامیاب نہیں ہوتے۔ بلکہ مفتری تباہ وبرباد کر دئیے جاتے ہیں۔ اس معیار کے رو سے بھی حضرت مسیح موعود صادق ٹھہرتے ہیں۔ آپ کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کا بول بالا ہو اور غیروں کی طرف سے جو حملے اسلام پر کئے جاتے ہیں ان کو دفع کیا جاسکے اور آپ ایک ایسی جماعت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو آپ کے اس مشن کو ہمیشہ جاری رکھ سکے۔ سو دوست اور دشمن گواہ ہیں کہ