حضرت مرزاصاحب اپنے اس مقصد میں ہر طرح کامیاب اور کامران ہوئے ہیں اور یہ آپ کی سچائی کی علامت ہے۔
۷… قرآن مجید میں لکھا ہے: ’’ظہر الفساد فے البر والبحر (روم)‘‘
پھر فرمایا: ’’وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین (جمعہ)‘‘
ان آیات سے معلوم ہوا ہے کہ یہی زمانہ مامور الٰہی کے ظہور کا ہوتا ہے۔ (اقتراب الساعۃ ص۱۳) پر لکھتا ہے: ’’اب اسلام کا صرف نام، قرآن کا فقط نقش باقی رہ گیا ہے۔ مسجدیں ظاہر میں تو آباد ہیں۔ لیکن بالکل ویران، علماء اس امت کے بدتر ان کے ہیں۔‘‘
غرض یہ زمانہ پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ اس وقت کسی کو ظاہر ہونا چاہئے تھا۔ اس لئے حضرت مرزاصاحب نے فرمایا ہے ؎
وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت
میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا
(درثمین اردو)
۸… قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ نے فرمایا: ’’فمن اظلم ممن افتریٰ علی اﷲ کذباً اوکذب باٰیٰتہ انہ لا یفلح المجرمون (یونس)‘‘ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب سچے اور جھوٹے کا مقابلہ ہوگا تو ہمیشہ سچے ہی غالب آئیں گے۔
اب ظاہر ہے کہ موجودہ زمانے کے مولوی اور دوسرے مخالفین قدم قدم پر روڑے اٹکاتے رہے اور انہوں نے کوشش کی کہ کوئی مرزاقادیانی کو مان نہ سکے۔ مگر
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
ان کی کچھ پیش نہ گئی اور احمدیت چار دانگ عالم میں پھیل گئی اور دنیا کے بہت سے ممالک میں اسلام کا پرچم لہرانے لگا ہے۔
۹… اﷲتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: ’’یصلح قد کنت فینا مرجوا قبل ہذا (ھود)‘‘
یعنی صالح علیہ السلام کی قوم ان سے بڑی بڑی امیدیں وابستہ کئے ہوئے تھی۔ مگر جب صالح علیہ السلام نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا تو ان کی تمام آرزؤں پر پانی پڑ گیا۔ گویا دعویٰ سے پہلے تو صالح علیہ السلام سے ان کو بڑی بڑی امیدیں تھیں۔ دعویٰ سننے کے بعد ان کو نکما اور حقیر