۱… ’’فقد لبثت فیکم عمراً من قبلہ افلا تعقلون (یونس)‘‘
’’اب دیکھو خداتعالیٰ نے اپنی حجت کو تم پر اس طرح پر پورا کر دیا کہ میرے دعوے پر ہزارہا دلائل قائم کر کے تمہیں یہ موقع دیا ہے کہ تاتم غور کرو کہ وہ شخص جو تمہیں اس سلسلے کی طرف بلاتا ہے وہ کس درجہ کی معرفت کا آدمی ہے اور کس قدر دلائل پیش کرتا ہے اور تم کوئی عیب افتراء یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگاسکتے۔ تم یہ خیال کرو کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افتراء کا عادی ہے یہ بھی اس نے جھوٹ بولا ہوگا۔ کون تم میں ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا۔ پس یہ خدا کا فضل ہے جو اس نے ابتداء سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے۔‘‘ (تذکرۃ الشہادتین ص۶۲، خزائن ج۲۰ ص۶۴) آپ کی اس تحدی کے مقابلے میں ہم احمدیت کے ایک شدید مخالف مولوی محمد حسین صاحب بٹالویؒ کی حسب ذیل تحریرات پیش کرتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں: ’’مؤلف براہین احمدیہ کے حالات وخیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں۔ ہمارے معاصرین سے ایسے واقف کم نکلیں گے۔ مؤلف صاحب ہمارے ہم وطن ہیں۔ بلکہ اوائل عمر کے ہمارے ہم مکتب۔‘‘
(اشاعت السنہ ج۷ نمبر۹ ص۱۷۶)
پھر لکھا ہے: ’’مؤلف براہین احمدیہ مخالف وموافق کے تجربے اور مشاہدے کی رو سے اور اﷲ حسیبہ، شریعت محمدیہ پر قائم وپرہیزگار اور صداقت شعار ہیں۔‘‘
(اشاعت السنہ ج۷ نمبر۹ ص۳۸۴)
اسی طرح مولوی محمد حسین بٹالویؒ نے حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کی سب سے پہلی اور عظیم الشان تصنیف براہین احمدیہ پر نہایت ہی شاندار ریویو لکھا تھا۔ یہ تحریریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضرت مرزاصاحب کی قبل از دعوے زندگی یگانوں اور بیگانوں کی نظر میں ہر قسم کے جھوٹ اور افتراء سے پاک تھی۔
حضرت رسول کریمﷺ نے جس وقت کفار مکہ کے سامنے یہ دلیل پیش کی تھی اور ان سے پوچھا ’’اکنتم مصدقی‘‘ کہ کیا تم مجھے سچا سمجھتے ہو؟ تو لوگوں نے جوب دیا۔ ’’ما جربنا علیک الا صدقا‘‘ یعنی ہم نے تجھے ہمیشہ صادق پایا ہے۔ (بخاری ج۳ ص۱۰۶، تفسیر سورۃ الشعرائ) لیکن جب حضور نے اس اقرار کے بعد اپنا دعویٰ نبوت پیش کیا تو ان لوگوں نے آپؐ کو ساحر اور کذاب کہا۔ (سورۂ ص)
اسی طرح حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت لوط، حضرت شعیب علیہم