اسلام ان کا صیدزبوں ہے۔ اس پر حملہ آور ہوگئے۔ یوں تو سارے مذاہب نے اس پر یکبارگی حملہ کیا۔ مگر سب سے زیادہ منظم اور بڑا حملہ عیسائیت کا تھا۔ عیسائی مصنفین اور مستشرقین نے اسلام کے خلاف وہ گند اچھالا کہ الامان والحفیظ! وہ دین جو بڑی شان وشوکت کے ساتھ جزیرہ عرب سے نکل کر کرہ ارض کی ایک چوتھائی آبادی کا مذہب بن چکا تھا۔ بے یارومددگار ہوکر رہ گیا۔ اسلام کی اس کسمپرسی اور مظلومیت کو دیکھ کر ایک دل تڑپا اور بے چین ہوا۔ اس نے صرف ایک شعر میں اس میدان جہاد کا یوں نقشہ کھینچا ؎
ہر طرف کفر است جو شاں ہمچو افواج یزید
دین حق بیمار وبے کس ہمچو زین العابدین
(درثمین فارسی)
بایں ہمہ آپ نے ببانگ بلند اعلان فرمایا:
ہر طرف ذکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے
کوئی دین دین محمد سا نہ پایا ہم نے
کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلاوے
یہ ثمر باغ محمدؐ سے ہی کھایا ہم نے
ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا
نور ہے نور اٹھو دیکھو سنایا ہم نے
اور دینوں کو جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا
کوئی دکھلائے اگر حق کو چھپایا ہم نے
(درثمین اردو)
اور فرمایا: ’’مجھے خداتعالیٰ کی پاک اور مطہر وحی سے اطلاع دی گئی ہے کہ میں اس کی طرف سے مسیح موعود اور مہدی معہود اور اندرونی وبیرونی اختلافات کا حکم ہوں۔‘‘ (اربعین نمبر۱ ص۴)
نیز فرمایا: ’’میں اسی خدائے تعالیٰ کی قسم کھا کر لکھتا ہوں۔ جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ میں وہی مسیح موعود ہوں جس کی رسول اﷲﷺ نے احادیث صحیحہ میں خبر دی ہے۔ جو بخاری اور مسلم اور دوسری صحاح میں درج ہیں۔ وکفے باﷲ شہیدا ‘‘ (ملفوظات ج۱ ص۳۲۷)
پھر فرمایا: ’’جب تیرھویں صدی کا آخیر ہوا اور چودھویں صدی کا ظہور ہونے لگا تو