لئے خود مرزاصاحب کے اقوال ہم پیش کرتے ہیں تو آپ کو تکلیف ہو جاتی ہے۔ گویا ؎
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے
آپ نے حضرت مرزاصاحب کی ایک لمبی تحریر پیش کی ہے کہ آپ نے فرمایا تھا کہ ’’میری کتابوں میں نبی اور رسول کے الفاظ کو ترمیم شدہ سمجھو۔‘‘ یاد رہے کہ حضرت مرزاصاحب نے آپ حضرات کی تکلیف کا خیال کر کے ایسا فرمایا تھا ورنہ آپ اپنے دعوے پر از ابتداتا انتہاء بدستور قائم رہے۔ اس کی مثال تو بالکل ایسی ہی ہے کہ جب صلح حدیبیہ کے موقعہ پر انہوں نے کہا کہ ہم حضرت محمدﷺ کو رسول نہیں مانتے۔ اس لئے محمد بن عبداﷲ لکھا جائے۔ چنانچہ آنحضرتﷺ نے کفار مکہ کی ضد، ہٹ دھرمی اور ان کی تکلیف کے خیال سے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ یہ الفاظ مٹا دو۔ مگر حضرت علیؓ اس کے لئے تیار نہ ہوئے۔ تب: ’’محاہ رسول اﷲﷺ بیدہ‘‘ (بخاری ج۲ ص۷۰ مصری) یعنی آنحضرتﷺ نے اپنے ہاتھ سے اپنے نام سے رسول اﷲ کے الفاظ مٹادئیے۔ اب اگر کوئی کج فہم اس سے یہ نتیجہ نکالے کہ حضرت رسول کریمﷺ نے اپنے دعوے رسالت سے رجوع کر لیا تو اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ ؎
الٹی سمجھ کسی کو بھی ایسی خدا نہ دے
دے آدمی کو موت پہ یہ بد ادا نہ دے
آپ نے لکھا ہے سراج کے معنی سورج ہیں چراغ نہیں۔ حالانکہ ہم نے اپنے گزشتہ پرچے میں ’’زرقانی‘‘ کا حوالہ دیا ہے کہ سراج سے مراد چراغ بھی ہے۔ مگر آپ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے علاوہ مفردات راغب جو قرآن کریم کی بہترین لغت ہے۔ اس میں بھی سراج کے معنی چراغ لکھے ہیں۔
ہم نے ’’مع المؤمنین‘‘ والی آیت تو اس لئے پیش کی تھی کہ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے والے اس دنیا میں بھی مؤمن ہوتے ہیں۔ قیامت کو بھی مؤمن ہوں گے۔ اسی طرح حضرت رسول کریمﷺ کے فرمانبردار علیٰ قدر مراتب اس دنیا میں بھی نبی، صدیق، شہید اور صالح ہوں گے اور قیامت کو بھی نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کے زمرے میں اٹھائے جائیں گے۔