کے اقوال پیش کرنے کے لئے الانسان الکامل، فتوحات مکیہ، موضوعات کبیر، مجمع البحار، الیواقیت والجواہر، کنزالعمال اور مثنوی مولانا روم پیش نہ کرتے تو کیا بقول آپ کے صرف خلائی حوالوں پر اکتفا کرتے؟ حضرت مرزاصاحب نے خاتم النبیین ہونے کا کبھی دعویٰ نہیں کیا اور ہم تفصیل سے پہلے بیان کر چکے ہیں۔ حضرت مرزاصاحب نے اپنے تئیں کبھی شرعی نبی نہیں کہا۔ چنانچہ آپ واضح طور پر فرماتے ہیں: ’’خدا نے میرا نام نبی رکھا۔ مگر بغیر شریعت کے، شریعت کا حامل قیامت تک قرآن ہے۔‘‘ (تجلیات الٰہیہ ص۲۶)
اور اربعین میں حضرت مرزاصاحب نے الزامی طور پر جواب دیا ہے۔ جیسا کہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی نے اپنی کتاب (حجتہ الاسلام ص۱۷) پر تحریر فرمایا ہے کہ: ’’اے حضرات مسیحی! ہمارا کام فقط عرض معروض ہے۔ سمجھانے کی بات سمجھ لینا تمہارا کام ہے۔ خدا سے التجا کرو کہ حق کو حق کر دکھلائے اور باطل کو باطل کر دکھلائے۔ برا نہ مانو تو سچ ہے کہ سچے عیسائی ہم ہیں۔‘‘
تو کیا اس حوالے کی رو سے آپ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی ٔ مدرسہ دیوبند کو جو آپ کے روحانی جدامجد ہیں آئندہ عیسائی کہا کریں گے؟
آپ نے ’’نختم علے افواہہم‘‘ اور ’’ختم اﷲ علیٰ قلوبہم‘‘ وغیرہ آیات پیش کی ہیں اور بزعم خود سمجھا یہ ہے کہ اس مہر کے بعد نہ کوئی چیز ان کے دلوں کے اندر داخل ہوگی نہ اندر سے باہر نکلے گی۔ اسی لئے آپ نے اس مہر کی مثال ڈاک کے تھیلے سے دی ہے کہ جب تھیلا بند کر دیا جاتا ہے تو نہ کچھ باہر آسکتا ہے نہ کچھ اندر جاسکتا ہے۔ مگر جس مہر کا مندرجہ بالا آیات میں ذکر ہے ان کے بارے میںتو قران شریف میں لکھا ہے: ’’یوم تشہد علیہم السنتہم (نور)‘‘
نیز وہ کافر کہیں گے: ’’وقالوا لجلودہم لم شہدتم علینا‘‘
یعنی وہ اپنے چمڑوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں گواہی دی۔ علاوہ ازیں جن لوگوں کے دلوں پر اﷲتعالیٰ نے مہر کر دی تھی۔ کیا ان کے دلوں کی گندگی اور ناپاکی ہروقت باہر نہیں آتی رہتی تھی؟ آپ شکایت کرتے ہیں کہ مرزاصاحب کی کتابوں کے حوالے کیوں دئیے جاتے ہیں؟ بڑے افسوس کی بات ہے کہ آپ خود تراش تراش کر حضرت مرزاصاحب پر الزام لگاتے ہیں اور جب آپ کی اس سازش کا بھانڈا چوراہے میں پھوڑنے کے