رحمت نازل ہوتی ہے تو زمین میں روئیدگی کی بے پناہ قوت پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی کے مطابق نظام روحانی بھی اپنے دائرے کے اندر کام کر رہا ہے۔ چنانچہ جب زمینی لوگوں کے اندر ہر قسم کے بگاڑ پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ آسمانی تعلیمات سے سخت منحرف ہونے لگتے ہیں تو خداتعالیٰ کمال رحمت سے اپنے کسی فرستادہ کو بھیجتا ہے جو گم گشتوں کے لئے شمع ہدایت کا کام دیتا ہے۔
یہ دونوں قسم کی سنت الٰہی ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ خداتعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ روحانی اور جسمانی خشک سالی کے ازالہ کا انتظام کیاگیا ہے اور یہ انتظام ہر قوم میں ہوتا رہا ہے اور دنیا کی ہر قوم میں نبی برپا ہوئے ہیں۔ جیسا کہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے: ’’وان من امۃ الا خلافیہا نذیر (فاطر)‘‘
اس طرح قریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کے ذریعے اﷲتعالیٰ نے اپنی روحانی رحمت کی بارشیں جن سے اپنے وقت تشنہ لب دنیا سیراب ہوتی رہی۔ پس نبوت خداتعالیٰ کی ایک بڑی رحمت ہے۔ بدقسمت ہے وہ انسان جو اس نعمت عظمیٰ سے منہ پھیرتا اور اپنے گھر کے دروازے بند کر کے اپنے لئے تاریکی پیدا کر لیتا ہے۔
انہی روحانی بارشوں میں سے آخری بارش حضرت محمد عربیﷺ کا سلسلہ ہے اور ہمارا عقیدہ ہے کہ جب کبھی دنیا میں بگاڑ حد سے بڑھ جائے گا اسی محمدی بارش کے پانی سے سیراب کرنے والے برپا ہوتے رہیں گے۔ آج کل مسلمانوں کی کیا حالت ہے؟ اس کے لئے مولانا حالی کا مرثیہ اور ڈاکٹر اقبال کا شکوہ اور جواب شکوہ دیکھ لینا کافی ہے کہ وہ ان کی حالت زار کا آئینہ دار ہے۔
اے زمین اور اے آسمان! گواہ رہنا کہ جماعت احمدیہ یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ سیدنا حضرت محمد رسول اﷲﷺ ہی سب سے افضل نبی ہیں اور حضورﷺ کی امت میں سے ہی اس آخری زمانے میں ایک شخص امتی نبی بن کر ظاہر ہونے والا تھا۔ اس کے برعکس ہمارے مدمقابل گویہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت رسول کریمﷺ کے بعد بھی نبی کی ضرورت ہے۔ جو امت محمدیہ کی اصلاح کر سکے۔ مگر وہ محمدی نبی نہیں ہوگا۔ بلکہ ایک گزشتہ پرانا اسرائیلی نبی آسمان سے نازل ہوگا۔
بسوخت عقل زحیرت ایں چہ بوالعجبی است
ہمارے مدمقابل نے باربار حضرت مرزاصاحب کو آخری نبی قرار دے کر ہمارا دل