نے ’’الا الذین تابوا (آل عمران:۸۹)‘‘ والی آیت ایک نئی دلیل دی ہے۔ مگر آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ اس میں ’’مع المؤمنین‘‘ ہے۔ دعویٰ یہ کہ نیک عمل سے نبوت ملتی ہے۔ دلیل یہ دیتے ہیں کہ وہ قیامت کے دن مؤمنوں کے ساتھ ہوں گے۔ میں قربان جاؤں میرے سرکارﷺ کے، کہ مولوی سلیم نے ’’مع النبیین‘‘ کی دلیل سے عاجز آکر ’’مع المؤمنین‘‘ کا حوالہ دیا۔ گویا اقرار کر لیا کہ توبہ کرنے والے اور نیک لوگ مخلص لوگ مؤمن ہوں گے۔ مؤمنین کے ساتھ ہوں گے۔ جو معنیٰ بھی آپ کر لیں ہمارا مطلب حاصل، کہ یہ لوگ جنگ میں مؤمن کے ساتھ رہیں گے۔ یہ سب ذکر قیامت کے بعد کا ہے۔ جنت کا ہے۔ دنیا کا نہیں۔ میں نے اس سے قبل بڑی وضاحت سے لکھ دیا تھا کہ تمہارا دعویٰ تو یہ ہے کہ دنیا میں نبوت جاری اور دلیل یہ دیتے ہو کہ قیامت میں وہ نبیوں کے ساتھ ہوں گے۔ دنیا کا کوئی عقلمند اس دعویٰ کو اس دلیل سے تسلیم کر لے گا؟ شکر ہے کہ آپ نے اقرار کر لیا کہ قرآن اور کلمہ اور دین لانے والا اور کوئی نہ ہوگا۔ لہٰذا آپ نے اپنے پہلے پرچہ میں جتنی آیات قرآنی اور احادیث کو اپنے مطلب کے مطابق سمجھ کر لکھ ڈالا تھا۔ اس پرچہ میں خود ہی اس پرقلم تنسیخ پھیر دیا۔ مگر ذرا سنو تو سہی کہ خود مرزاقادیانی اربعین میں تو شریعت والا نبی اپنے آپ کو کہتے ہیں۔ بڑی مشکل ہے آپ کے لئے کہ ادھر نکلے تو ادھر پھنسے۔ آپ نے اسلامی تاریخ کا شاید مطالعہ کم کیا ہے۔ ورنہ قیصر وکسریٰ کی سلطنت کی تباہی وبربادی کب ہوئی۔ وہ قیصر کب ہلاک ہوا اس کی حکومت کب گئی معلوم ہو جاتا۔ سنو ایک فارسی کا شعر ؎
پردہ داری می کند بر قصر قیصر عنکبوت
بوم نبوت می زند برگنبد افراسیاب
مرزاقادیانی کی اردو کتاب میں ’’خاتم الولد‘‘ کا میں نے حوالہ اس لئے دیا تھا کہ دنیا کے اردو داں سمجھ جائیں کہ جب ’’خاتم الولد‘‘ کے بعد ’’ولد‘‘ نہیں تو ’’خاتم النبیین‘‘ کے بعد نبی کیسا؟ دوسرا حوالہ ’’خاتم الاولاد‘‘ کا بھی تو دیا اس کو تو آپ نے منگا کر دیکھ بھی لیا ہے۔ وہ اردو ہے کہ عربی ’’الولد‘‘ اردو لفظ ہے۔ یہ آج ہی معلوم ہوا اور اولاد بھی اردو ہی ہے؟ افسوس میرے پیارے دوست آج تم کو کیا ہوگیا ہے؟ اس قسم کی باتیں کیوں کہتے ہو؟ کتاب طبع ہونے کے بعد دنیا والے کیا کہیں گے؟
۱… اگر ابراہیم زندہ ہوتے نبی ہوتے۔
۲… اگر خدا کا بیٹا ہوتا تو میں اس کی پہلے عبادت کرتا۔