حضرت بانی ٔ سلسلۂ احمدیہ فرماتے ہیں: ’’مسلمانوں میں سخت نادان اور بدقسمت وہ لوگ ہیں جو… آنحضرتﷺ کے ابدی فیض سے ایسا اپنے تئیں محروم جانتے ہیں کہ گویا آنحضرتﷺ نعوذ باﷲ زندہ چراغ نہیں ہیں۔ بلکہ مردہ چراغ ہیں۔ جن کے ذریعے سے دوسرا چراغ روشن نہیں ہوسکتا۔ وہ اقرار رکھتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام نبی زندہ چراغ تھا۔ جس کی پیروی سے صدہا نبی چراغ ہوگئے… مگر ہمارے سید ومولا حضرت محمدﷺ کی پیروی کسی کو کوئی روحانی انعام عطا نہ کر سکی… آیت خاتم النبیین کے یہ معنی ہیں کہ آپ نبیوں کے لئے مہر ٹھہرائے گئے ہیں۔ یعنی آئندہ کوئی نبوت کا کمال بجز آپ کی پیروی کی مہر کے کسی کو حاصل نہیں ہوگا۔ یہ معنی تھے جن کو الٹا کر نبوت کے آئندہ فیض سے انکار کر دیا گیا… نبی کا کمال یہ ہے کہ وہ دوسرے شخص کو ظلی طور پر نبوت کے کمالات سے متمتع کر دے اور روحانی امور میں اس کی پوری پرورش کر کے دکھلا دے… اور ماں کی طرح حق کے طالبوں کو گود میں میں لے کر خداشناسی کا دودھ پلائے۔ پس اگر آنحضرتﷺ کے پاس یہ دودھ نہیں تھا تو نعوذ باﷲ آپ کی نبوت ثابت نہیں ہوسکتی۔ مگر خداتعالیٰ نے تو قرآن شریف میں آپ کا نام سراج منیر رکھا ہے جو دوسروں کو روشن کرتا ہے اور اپنی روشنی کا اثر ڈال کر دوسروں کو اپنی مانند بنادیتا ہے۔‘‘ (چشمہ مسیحی ص۷۲،۷۵)
حضرات! ہم اپنے سابقہ پرچوں میں ۲۹دلائل دے چکے ہیں۔ جو قرآن مجید، احادیث اور اقوال بزرگان سلف پر مشتمل ہیں۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہمارے مدمقابل نے ہمارے ان دلائل کو توڑنے کی ذرہ بھر جرأت نہیں کی۔ نہ صرف یہی بلکہ وہ سو آیتیں بھی پیش نہیں کیں۔ بلکہ ان کا عشر عشیر بھی پیش نہیں کیا۔ جن سے بزعم خود باب نبوت کو وہ بند سمجھتے ہیں۔ وہ حوالوں کے لئے اور ان آیتوں کو پیش کرنے کے لئے ہم سے علیحدہ وقت مانگتے اور ہمی اپنے گھر پر بلاتے ہیں۔ جیسا کہ وہ اپنے سابقہ پرچے میں بڑی بیچارگی سے کہہ چکے ہیں۔ ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ اگر مناظرہ سے علیحدہ وقت کی ضرورت تھی اور گھر پر بلا کر ہی بات چیت کرنا مقصود تھا تو میدان مناظرہ میں اترنے کی جرأت کیوں کی تھی۔ مبارزت میں آنے کے بعد حریف سے یہ التجائیں کرنا کہ علیحدگی میں میری بات سنو۔ میرے گھر پر آؤ میں تمہیں نئے سے نیا داؤ بتلاؤں گا۔ اس سے خوب کھل جاتا ہے کہ میدان میں اترنے والا صرف درشنی پہلوان ہے۔ ورنہ مقابلے سے تو اس کی روح فنا ہوتی ہے۔
ہم ایک دفعہ پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے پیش کردہ دلائل کا رد کیا جائے اور اگر