کے دعوے کو رد کر دے۔
علاوہ ازیں آپ نے اس میں یہ بھی لکھ دیا کہ آپ نے قرآن شریف کی آیت کو غلط لکھ دیا۔ میرے دوست تم خود دیکھ رہے ہو کہ میں خود سب کام کرتا ہوں۔ اگر کہیں قلم سے لغزش ہوگئی ہوگی تو اس میں ہرج کیا ہے۔ کیا میں نے معصوم ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ کیا میں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ جب میں نبوت کا دعویٰ نعوذ باﷲ کروں تو اس وقت تم میری تحریر کو لوگوں کو دکھا دینا کہ اس کو تو قرآن بھی معلوم نہیں تھا۔ یہ کیسے نبی ہوگیا۔ مگر تم کو معلوم نہیں کہ مرزاقادیانی نے نبی بن کر معصوم ہوکر، سلطان القلم ہوکر، قلم کی غلطی سے پاک ہوکر بے شمار قرآن کی آیتوں کو غلط لکھا ہے۔ ’’ماھوجوابکم فہو جوابنا‘‘
میرے دلائل جو میں نے دونوں پرچوں میں دے دئیے ہیں۔ وہ اس سامنے نظر آنے والے یادگیر کے پہاڑ سے بھی زیادہ مضبوط اور وزنی ہیں۔ اس سے بچنے کے لئے مولانا روم، اور کنزالعمال اور تکلمہ مجمع البحار وغیرہ کا حوالہ خلاف شرائط مناظرہ دیتے چلے جاتے ہو۔ حالانکہ کل ہی میں نے ٹوک دیا تھا۔ مگر آپ مجبور ہیں۔ کاغذ کسی نہ کسی طرح بھرنا ہے۔ ورنہ دنیا کیا کہے گی۔ اس پرچے میں بھی آپ نے مرزاقادیانی کے حوالے دئیے ہیں۔ دوست! مرزاقادیانی مدعی نبوت ہیں، گواہ نہیں۔ لہٰذا میرے بھائیو! روز روشن کی طرح ثابت ہوگیا کہ خاتم النبیین کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔ ’’الحمد ﷲ علی احسانہ‘‘ لہٰذا میری خود میرے دوست سے درخواست ہے۔
باز آباز آ ہر آنچہ ہستی باز آ
اگر مرزاقادیانی کے بعد بھی نبوت کا دروازہ کھلا ہے تو آپ کی تبلیغ بیکار ہے۔ کیونکہ لوگ آپ سے پوچھیں گے کہ کیا مرزاقادیانی کے بعد بھی نبی آئیں گے؟ آپ کہیں گے ہاں تو وہ جواب دے گا کہ خیر آپ تشریف لے جائیے۔ نبوت کا دروازہ تو بند نہیں۔ میں مرزاقادیانی کا کلمہ نہیں پڑھوں گا۔ کیونکہ ان کی لائف پر مجھے شک ہے۔ کسی دوسرے نبی کا کلمہ پڑھ لوں گا۔ اس وقت سوائے خاموشی کے آپ کو چارہ نہ ہوگا۔ تبلیغ کا حق اسی کو ہے جو آخری ہے۔
(شرح دستخط) احقر محمد اسماعیل عفی عنہ
مورخہ ۲۴؍نومبر ۱۹۶۳ء