کرتا ہوں۔‘‘ دستخط: حبیب اﷲ خان، ۲۷؍اپریل ۱۹۳۵ء
پہلی ملاقات کے وقت جناب محمد حیدر صاحب سیکرٹری مدرسہ عربیہ اور جناب مولوی شرف الدین خان صاحب موجود تھے۔ مذکورۂ بالا کارروائی ان کے روبرو ہوئی۔
دوسری بار بتاریخ ۱۰؍مئی ۱۹۳۵ء قادیانی پھر بروز جمعہ آٹھ بجے مولانا مولوی محمد عبدالسلام سلیم ہزاروی کے گھر پر گیا اور قادیان سے مباہلہ کے متعلق آیا ہوا خط مولانا کو بتایا۔ جس کی نقل بعینہ ذیل میں درج ہے۔
۲۸؍محرم ۱۲۵۴ھ مطابق ۳؍مئی ۱۹۳۵ء
بخدمت مکرم جناب حبیب اﷲ خان صاحب
’’السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ
آپ کا خط مجھے ۲۷؍اپریل ۱۹۳۵ء کو موصول ہوا۔ حضور نے بعد ملاحظہ ارشاد فرمایا۔ اچھی بات ہے۔ مباہلہ کا چیلنج قبول کر لیں۔ شرائط یہ ہوں گی۔ دونوں فریق دعا سے پہلے دو دو گھنٹہ اپنے عقائد کو پیش کریں گے تاکہ دونوں پر حجت قائم ہو جائے تاکہ بعد میں یہ سوال نہ کیا جائے کہ بغیر تحقیق کے مباہلہ کیاگیا ہے۔ ہر دو جانب سے ۳۰،۳۰ آدمی ہوں گے۔ آپ جو تاریخ مقرر کریں اس سے پہلے ایک مہینہ اطلاع دیں تاکہ ہمارے آدمی بھی اس جگہ پہنچ جائیں۔‘‘
دستخط: عبدالرحمن
انچارج تحریک جدید قادیان
مندرجہ خط کے بعد مولانا اور حبیب اﷲ خان کے درمیان جو تحریریں ہوئیں وہ ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔
’’فریقین کے ہاں بچے اور ۳۰،۳۰ آدمی میدان میں مباہلہ کے لئے جائیں گے اور خداوند کریم سے دعا کریں گے کہ جو جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت نازل ہو۔ مباہلہ کے لئے مورخہ ۳؍جون ۱۹۳۵ء مقرر ہے۔ اس مقررہ تاریخ سے ۵دن کی کمی بیشی بھی ہو تو مضائقہ نہیں۔ مباہلہ کا ہونا ضروری ہے۔ جو جماعت مباہلہ سے منہ پھیرے گی اس پر دنیا وآخرت میں خدا کی لعنت اور عذاب شدید نازل ہو۔ کسی جماعت کے عقائد پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ طرفین ایک دوسرے کے عقائد کا علم رکھتے ہیں اور مباہلہ سے اس بات کا تعلق بھی نہیں ہے۔‘‘ فقط: