۲۸… حضرت نواب صدیق حسن خاں صاحب فرماتے ہیں: ’’لا نبی بعدی‘‘ آیا ہے۔ اس کے معنی نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ نہ لاوے گا۔
(اقتراب الساعۃ ص۱۶۲)
۲۹… حضرت مولانا عبدالحئی صاحب لکھنوی فرماتے ہیں کہ: ’’بعد آنحضرتﷺ کے یازمانے میں آنحضرتﷺ کے، مجرد کسی نبی کا ہونا محال نہیں بلکہ صاحب شرع جدید ہونا البتہ ممتنع ہے۔‘‘ (دافع الوسواس فی اثر ابن عباس ص۱۶) یہ دلائل پیش کرنے کے بعد اب ہم اپنے مدمقابل کی باتوں کا جواب دیتے ہیں۔ آپ نے لکھا ہے کہ حضرت مرزاصاحب نے دعویٰ نبوت سے انکار کیا ہے۔ اس کے جواب میں خود حضرت مرزاصاحب کا ایک فیصلہ کن حوالہ پیش کرتے ہیں۔
آپ لکھتے ہیں: ’’جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت کا انکار کیا ہے۔ صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کسی شریعت لانے والا نہیں ہوں اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں۔ مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتداء سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لئے اس کا نام پاکر اس کے واسطے سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے۔ رسول اور نبی ہوں۔ مگر بغیر کسی جدید شریعت کے اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کرتا۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۷)
اس حوالے سے ظاہر ہے کہ آپ نے صرف تشریعی نبوت سے انکار کیا ہے۔ ورنہ آپؐ کا دعویٰ ہے کہ آپؐ آنحضرتﷺ کی غلامی کے نتیجے میں خدا کے نبی اور رسول ہیں۔
آپ نے خطبۂ الہامیہ کا حوالہ دیا ہے کہ مرزاقادیانی نے اپنے آپ کو خاتم الاولیاء کہا ہے۔ حالانکہ وہاں آپ نے لکھا ہے: ’’انا خاتم الاولیاء لا ولی بعدی الا الذی ہو منی وعلی عہدی‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ص۳۵)
یعنی میں خاتم الاولیاء تو ضرور ہوں۔ مگر اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ میرے بعد کوئی ولی نہ ہوگا۔ بلکہ مجھ پر ایمان لائے گا اور میرعہد میں شامل ہوگا۔ میرے بعد ولی ہوسکتا ہے۔
آپ نے ’’من یطع اﷲ والرسول‘‘ پر اعتراض کیا ہے کہ کیا سارے رسول بن جائیں گے تو امتی کون ہوگا؟ حالانکہ قرآن مجید میں دوسری جگہ اﷲتعالیٰ نے فرمایا ہے: