ینقص من ضؤہ شیٔ‘‘ کہ آنحضرتﷺ کا نام اس لئے سراج رکھاگیا کہ اس سے بہت سے چراغ روشن کئے جاسکتے ہیں۔ بایں ہمہ اس کی روشنی میں کوئی کمی نہیں آتی۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ آنحضرتﷺ ایسے روشنی بخش چراغ ہیں کہ آپ کے نور سے منور ہوکر آپ کی غلامی میں نبی اور رسول ہوسکتے ہیں۔
۱۱… ’’وما کنا معذبین حتیٰ نبعث رسولاً (بنی اسرائیل:۱۰)‘‘
نیز فرمایا: ’’وان من قریۃ الا نحن مہلکوہا قبل یوم القیمۃ اومعذبوہا عذاباً شدید (بنی اسرائیل:۸۵)‘‘
اﷲتعالیٰ نے فرمایا کہ ہم قیامت سے پہلے پہلے ہربستی کو عذاب شدید میں مبتلا کریں گے۔ مگر ایسا عذاب بھیجنے سے پہلے لوگوں پر اتمام حجت کرنے کے لئے ہم کوئی نہ کوئی رسول ضرور بھیجیں گے۔ پس آج جو عالمگیر عذاب آرہے ہیں۔ قرآن مجید کی رو سے اس زمانے میں کسی نہ کسی نبی کا ظہور لابدی ہے۔
۱۲… آنحضرتﷺ کی حدیث ہے: ’’لوعاش لکان صدیقاً نبینا‘‘ (ابن ماجہ جلد۱)
یعنی اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو ضرور سچا نبی ہوتا۔ حالانکہ اس بچے کی وفات سے چار سال پہلے آیت نازل ہوچکی تھی۔ پس اگر آنحضرتﷺ کے نزدیک خاتم النبیین کے معنی آخری نبی ہوتے تو آپ اپنے صاحبزادے کی وفات پر ایسا ہرگز نہ فرماتے۔
۱۳… حدیث شریف میں جو درود شریف مسلمانوں کو سکھایا گیا ہے۔ اس میں صریح طور پر وہ سب برکتیں مانگنے کی تلقین کی گئی ہیں۔ جو آل ابراہیم کو ملی تھیں۔ ظاہر ہے کہ آل ابراہیم کو بادشاہت کے علاوہ نبوت بھی ملی تھی۔ لہٰذا ماننا پڑے گا کہ آنحضرتﷺ کے بعد آپؐ کی غلامی میں آپؐ کی امت کے لئے نبوت کا دروازہ کھلا ہے۔ ورنہ ہمیں یہ درود نہ سکھایا جاتا۔
۱۴… آنحضرتﷺ نے فرمایا: ’’تکون النبوۃ فیکم ماشاء اﷲ ثم تکون خلافۃ علیٰ منہاج النبوۃ ماشاء اﷲ ثم تکون ملکا حاضا فتکون ماشاء اﷲ ثم تکون خلافۃ علے منہاج النبوۃ‘‘ (مشکوٰۃ، کتاب الفتن ص۴۶۱)
یعنی امت محمدیہ میں پہلے نبوت ہوگی۔ پھر نبوت کے طریق پر خلافت ہوگی۔ پھر ملوکیت اور بادشاہی ہوگی۔ اس کے بعد پھر نبوت کے طریق پر خلافت قائم ہوگی۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ اس آخری خلافت کے قیام سے پہلے کوئی نبی ضرور آئے گا۔ تاکہ اس کے بعد قائم ہونے والی