سے خارج ہوچکا ہے ۔اب چوتھی مرتبہ اس کی کامیابی کی کیا امید ہوسکتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ہم ڈنکے کی چوٹ یہ اعلان کرتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ کی یہ رحمت اور برکت جس کا نام نبوت ہے بند نہیں ہوگی۔ بلکہ رسول کریمﷺ کی غلامی میں ہمیشہ جاری رہے گی۔
۸… ’’اذابتلی ابراہیم ربہ بکلمت فاتمہن (بقرہ:۱۲۴)‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام ہر آزمائش میں پورے اترے تو اﷲتعالیٰ نے خوش ہوکر فرمایا: ’’انی جاعلک للناس اماما‘‘ کہ میں آپ کو دنیا کا پیشوا بناؤں گا۔ آپ نے فوراً پوچھا: ’’ومن ذریتی‘‘ کیا یہ انعام میری اولاد کو بھی ملے گا؟ اس کے جواب میں اﷲتعالیٰ نے فرمایا کہ میرا یہ عہد ظالموں کو حاصل نہ ہوگا۔ گویا اب اس نعمت کا انقطاع اسی صورت میں ممکن ہوگا جب کہ تیری اولاد نالائق اور نااہل ہو جائے اور یہ بات ہے بھی درست۔ کیونکہ قرآن مجید میں لکھا ہے: ’’ان اﷲ لا یغیر ما بقوم حتیٰ یغیر واما بانفسہم (الرعد:۱۱)‘‘ کہ جب اﷲتعالیٰ کی طرف سے کسی قوم پر کوئی حالت وارد ہوتی ہے تو پھر وہ اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک کہ قوم خود اپنی حالت کو نہ بدل ڈالے۔
پس اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ اب امت محمدیہ میں کوئی نبی نہیں ہوسکتا تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ امت خیر کی بجائے اب شرامت ہوچکی ہے اور ایسی نالائق اور نااہل ہوگئی ہے کہ اب اﷲتعالیٰ نے بھی نعمت نبوت اور رسالت کے دروازے اس پر بند کر دئیے ہیں۔
۹… ’’یایہا الرسل کلوا من الطیبت واعملوا صالحاً (مؤمنون:۵۱)‘‘
یعنی اے رسولو! پاک کھانے کھاؤ اور نیک کام کرو۔ ظاہر ہے کہ اس آیت کے نزول کے وقت صرف رسول کریمﷺ ایک رسول تھے۔ لہٰذا آپ کو ’’یایہا الرسول‘‘ تو کہا جاسکتا تھا۔ ’’یایہا الرسل‘‘ نہیں کہا جاسکتا تھا۔ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت تک آنے والے تمام رسول اس خطاب کے مخاطب ہیں۔
۱۰… ’’یایہا النبی انا ارسلنک شاہداً ومبشراً ونذیرا وداعیا الیٰ اﷲ باذنہ وسراجاً منیرا (احزاب:۴۵،۴۶)‘‘ یعنی اے نبی ہم نے تجھے شاہد اور مبشر اور نذیر اور داعی الیٰ اﷲ اور سراج منیر بنا کر بھیجا ہے۔ سراج منیر کے معنی یہ ہیں کہ دوسروں کو روشنی بخشنے والا چراغ۔ چنانچہ (زرقانی ج۳ ص۱۷۱) پر لکھا ہے: ’’قال القاضی ابوبکر بن العربی قال علماء قاسمی سراجاً لان السراج الواحد یؤخذمنہ السراج الکثیرۃ ولا