آپؐ کی غلامی ضروری ہے۔ لہٰذا یہ چاروں درجے آج بھی مل سکتے ہیں۔ بشرطیکہ کوئی شخص آنحضرتﷺ کا ایسا غلام ہو جائے کہ اﷲتعالیٰ کی نگاہ انتخاب اس کو کسی درجے کے لئے چن لے۔
۵… ’’یبنی اٰدم امایاتینکم رسل منکم یقصون علیکم اٰیٰتی فمن اتقیٰ واصلح فلا خوف علیہم ولاہم یحزنون (اعراف:۳۵)‘‘
یعنی اے آدم کی اولاد البتہ ضرور آئیں گے تمہارے پاس رسول تم میں سے جو بیان کریں گے تمہارے سامنے میری آیتیں۔ پس جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور اپنی اصلاح کرلی تو ان لوگوں پر کوئی ڈر اور غم نہیں ہوگا۔ اس آیت سے صاف ثابت ہے کہ جب تک اولاد آدم دنیا میں موجود رہے گی۔ ان کی بہتری کے لئے اﷲتعالیٰ کے رسول آتے رہیں گے۔
۶… ’’اہدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم (فاتحہ:۷،۸)‘‘
یہ آیت سورہ فاتحہ میں وارد ہوئی ہے اور یہ دعا اﷲتعالیٰ نے خود ہمیں سکھائی ہے کہ ہمیشہ انعام یافتہ لوگوں کی راہ پانے اس پر چلنے اور منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے دعا کرتے رہو تا کہ تم بھی ان تمام انعاموں کے وارث ٹھہرو۔ ظاہر ہے کہ دنیوی اعتبار سے سب سے بڑا انعام بادشاہت اور دینی اعتبار سے سب سے بڑا انعام نبوت ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ آنحضرتﷺ کی غلامی میں آپﷺ کی امت کے لئے بادشاہت اور نبوت کے دروازے کھلے ہیں۔
۷… ’’ولقد جاء کم یوسف من قبل بالبینت (مؤمن:۳۴)‘‘ اس آیت میں اﷲتعالیٰ نے ایک تاریخی واقعہ بیان فرمایا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات پر لوگوں نے یہی کہا تھا کہ اب کوئی نبی نہ ہوگا۔ مگر اﷲتعالیٰ نے ایسے لوگوں کو گمراہ، مسرف اور مرتاب کہا ہے۔ مزید برآں مسلم الثبوت جو مسلمانوں کے عقائد کی کتاب ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ: ’’اجماع الیہود علیٰ ان لا نبی بعد موسیٰ‘‘
(شرح مسلم الثبوت ص۴۹۵)
یعنی یہودی اس بات پر متفق تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا اور عیسائیوں کا حال تو ہم جانتے ہیں۔ وہ بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد کسی نبی کی آمد کے قائل نہیں اور اب نوبت باینجا رسید کہ بدقسمتی سے بعض مسلمان بھی اس غلطی کا شکار ہوگئے ہیں اور کہتے ہیں کہ رسول کریمﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ حالانکہ جو مقدمہ پہلے تین مرتبہ اﷲتعالیٰ کی عدالت