لے آئیو اﷲ پر اور اس کے رسولوں پر۔ گویا رسولوں پر ایمان لانے اور انکار کرنے سے خبیث اور طیب کے الگ الگ ہونے کا دستور ایک دائمی دستور ہے۔ اگر آنحضرتﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوچکا تھا تو بعثت نبویﷺ کے بعد آپ پر ایمان لانے والوں کو یہ کیوں کہا گیا کہ آئندہ بھی جب جب اچھے برے آپس میں مل جائیں گے تو ان میں تمیز کرنے کے لئے اﷲتعالیٰ اپنے رسول بھیجے گا۔
۳… ’’واذا اخذ اﷲ میثاق النبیین (آل عمران:۸۱)‘‘
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲتعالیٰ نے تمام نبیوں سے یہ پختہ وعدہ لیا تھا کہ وہ اپنے بعد آنے والے نبی پر ایمان لائیں اور اس کی مدد کریں۔ گویا نبوت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہنے کا پتہ دیا گیا ہے۔ ایک دوسری جگہ قرآن مجید کی (سورۃ احزاب:۱) میں پھر میثاق النبیین کا ذکر ہے اور فرمایا کہ جو عہد ہم نے تمام نبیوں سے لیا تھا اور نوح سے اور ابراہیم سے اور موسیٰ وعیسیٰ علیہم السلام سے لیا تھا وہی عہد اے محمدﷺ تجھ سے بھی لیاگیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر حضرت رسول کریمﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ بالکل بند تھا تو آپؐ سے وہی وعدہ کیوں لیاگیا جو دوسرے نبیوں سے لیاگیا تھا۔
۴… ’’ومن یطع اﷲ والرسول فاولئک مع الذین انعم اﷲ علیہم من النبیین والصدیقین والشہداء والصالحین وحسن اولئک رفیقا (نسائ:۶۹)‘‘
اس آیت میں اﷲتعالیٰ نے رسول پاکﷺ کی اطاعت کو ایسی اکسیر بتایا ہے کہ آپﷺ کے فرمانبردار انعام یافتہ گروہ میں شامل ہو جایا کریں گے۔ یعنی نبیوں میں، صدیقوں میں، شہیدوں میں اور صالحین میں۔ یہ حقیقت اور بھی شاندار ہو جاتی ہے جب کہ (سورۂ حدید:۲) کی اس آیت کو مدنظر رکھا جائے۔ جس میں فرمایا: ’’والذین اٰمنوا باﷲ ورسلہ اولئک ہم الصدیقون والشہداء (الحدید:۱۹)‘‘ کہ گذشتہ زمانوں میں گزشتہ نبیوں پر ایمان لانے والے صالح، شہید اور صدیق بنتے تھے۔ مگر آئندہ حضرت محمد رسول اﷲﷺ کے فرمانبردار ان تین درجوں کے علاوہ مقام نبوت کو بھی حاصل کر سکیں گے اور حضورﷺ کی یہ فیض رسانی آپ کو تمام نبیوں پر فضیلت ملنے کی ایک واضح دلیل ہے۔
البتہ یہ مدنظر رہے کہ آئندہ نبوت تو درکنار صدیق، شہید اور صالح بننے کے لئے بھی