سیدنا حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں: ’’لوگوں کی غلطی ثابت ہوتی ہے جو خواہ مخواہ حضرت عیسیٰ کو دوبارہ دنیا میں لاتے ہیں… جس حالت میں حدیثوں سے ثابت ہے کہ اسی امت میں سے یہود پیدا ہوں گے تو افسوس کی بات ہے کہ یہود تو پیدا ہوں اس امت میں سے اور مسیح علیہ السلام باہر سے آئے۔ کیا ایک خداترس کے لئے یہ مشکل بات ہے کہ جیسا کہ اس کی عقل اس بات پر تسلی پکڑتی ہے کہ اس امت میں بعض لوگ ایسے پیدا ہوں گے جن کا نام یہود رکھا جائے گا۔ ایسا ہی اسی امت میں سے ایک شخص پیدا ہوگا جس کا نام عیسیٰ علیہ السلام اور مسیح موعود رکھا جائے گا۔ کیا ضرورت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان سے اتارا جائے۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۳۰، خزائن ج۲۲ ص۳۲)
اب ہم ذیل میں قرآن مجید اور احادیث کے وہ دلائل بیان کرتے ہیں۔ جن سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریمﷺ کے بعد آپؐ کی پیروی اور غلامی میں نبوت کا دروازہ کھلا ہے۔
۱… اﷲتعالیٰ نے فرمایا: ’’اﷲ یصطفے من الملائکۃ رسلاً ومن الناس (الحج:۷۵)‘‘
اس آیت میں اﷲتعالیٰ نے یصطفیٰ ایک ایسا لفظ استعمال فرمایا ہے جو حال اور مستقبل دونوں زمانوں پر حاوی ہے اور مطلب یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ فرشتوں میں سے بھی اور انسانوں میں سے بھی رسول چنتا ہے اور چنتا رہے گا۔ اس میں ایسا کوئی اشارہ نہیں پایا جاتا کہ آئندہ کسی زمانے میں یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ چنانچہ فرشتوں کا آنا تو سب کو مسلم ہے۔ کم ازکم عزرائیل علیہ السلام کا آنا تو ماننا ہی پڑتا ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ فرشتوں اور انسانوں میں ارسال رسل کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔
۲… ’’ماکان اﷲ لیذر المومنین علے ما انتم علیہ حتیٰ یمیز الخبیث من الطیب (آل عمران:۱۷۹)‘‘
اس آیت کا سادہ ترجمہ یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ مؤمنوں کو فرماتا ہے کہ حضرت رسول اکرمﷺ پر ایمان لانے کے بعد بھی خبیث اور طیب آپس میں مل جل جائیں گے۔ مگر اﷲتعالیٰ انہیں ہمیشہ الگ الگ کرتا رہے گا۔ مگر یہ نہ ہوگا کہ اس غرض کے لئے اﷲتعالیٰ تم کو غیب کی خبریں دیا کرے۔ ہاں ایسا ہوگا کہ اپنے رسول بھیجے گا۔ اس لئے ’’فامنوا باﷲ ورسولہ‘‘ ایمان