کیونکہ یہ پیش گوئیاں تھیں اور پیش گوئیوں کی اصل حقیقت اسی وقت کھلا کرتی ہے۔ جب کہ وہ پوری ہوں۔ حضرات! ہم اپنے اس آخری پرچے کے آخر پر ایک دفعہ پھر اس امر کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے پیش کردہ دلائل قرآنیہ اور حدیثیہ اور اقوال بزرگان سلف پر ضرور غور فرمایا جائے۔ نیز یہ بھی کہ ہمارا مؤقف خدمت اسلام کا مؤقف ہے۔ جو وفات مسیح علیہ السلام کے قائل ہیں یا ہمارے مخالفین کا جو حیات مسیح کا ڈھنڈورہ پیٹتے نہیں تھکتے۔
بانی ٔ سلسلہ احمدیہ حضرت مرزاغلام احمد قادیانی نے کیا خوب فرمایا ہے کہ: ’’اے میرے دوستو! اب میری ایک آخری وصیت کو سنو اور ایک راز کی بات کہتا ہوں۔ اس کو خوب یاد رکھو کہ تم اپنے ان تمام مناظرات کا جو عیسائیوں سے پیش آتے ہیں۔ پہلو بدل لو اور عیسائیوں پر یہ ثابت کر دو کہ درحقیقت مسیح ابن مریم ہمیشہ کے لئے فوت ہوچکا ہے۔ یہی ایک بحث ہے جس میں فتح یاب ہونے سے تم عیسائی مذہب کی روئے زمین سے صف لپیٹ دوگے۔ تمہیں کچھ بھی ضرورت نہیں کہ دوسرے لمبے لمبے جھگڑوں میں اپنے اوقات عزیز کو ضائع کرو۔ صرف مسیح علیہ السلام ابن مریم کی وفات پر زور دو اور پرزور دلائل سے عیسائیوں کو لاجواب اور ساکت کر دو۔ جب تم مسیح علیہ السلام کا مردوں میں داخل ہونا ثابت کر دوگے اور عیسائیوں کے دلوں میں نقش کر دو گے تو اس دن تم سمجھ لو کہ آج عیسائی مذہب دنیا سے رخصت ہوا۔ یقینا کہ جب تک ان کا خدا فوت نہ ہو۔ ان کا مذہب بھی فوت نہیں ہوسکتا اور دوسری تمام بحثیں ان کے ساتھ عبث ہیں۔ ان کے مذہب کا ایک ہی ستون ہے اور وہ یہ ہے کہ اب تک مسیح ابن مریم علیہ السلام آسمان پر زندہ بیٹھا ہے۔ اس ستون کو پاش پاش کرو۔ پھر نظر اٹھا کر دیکھو کہ عیسائی مذہب دنیا میں کہاں ہے۔ چونکہ خدائے تعالیٰ بھی چاہتا ہے کہ اس ستون کو ریزہ ریزہ کرے اور یورپ اور ایشیاء میں توحید کی ہوا چلائے۔ اس لئے اس نے مجھے بھیجا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۳۲)
آخر میں ہم دعا کرتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ احقاق حق فرمائے اور سچائی کو قبول کر کے اسلام کی سربلندی اور عیسائیت کے خاتمے کا باعث ہوں۔ آمین!
(شرح دستخط) محمد سلیم عفی عنہ
(مولانا محمد سلیم، مناظر جماعت احمدیہ)
مورخہ ۲۳؍نومبر ۱۹۶۳ء