کہ ہمارے مدمقابل نے اب تک یہ بھی نہیں سمجھا کہ مرزاقادیانی بحیثیت مسیح موعود حفاظت اسلام کے لئے آئے تھے۔ نہ کہ پست اقوام کی حفاظت کے لئے حضرت مرزاقادیانی کے آنے سے پہلے مسلمان عیسائی ہوا کرتے تھے۔ لیکن آپ کی آمد کے بعد اﷲتعالیٰ نے مسلمانوں کو بالکل محفوظ کر دیا اور عیسائیت کے حملوں کا رخ اسلام سے پھر کر غیرمسلم اقوام کی طرف ہوگیا۔ پس عیسائیت کی تعداد میں جو اضافہ نظر آتا ہے تو یہ ان منتشر اقوام کے حلقہ بگوش عیسائیت ہونے کی وجہ سے ہے۔ جن کا کوئی گڈریا اور نگہبان نہیں۔ حضرت مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’وہ (علمائ) مجھ سے اور میری جماعت سے سات سال تک اس طور سے صلح کر لیں کہ تکفیر اور تکذیب اور بدزبانی سے منہ بند رکھیں اور ہر ایک کو محبت واخلاق سے ملیں اور قہر الٰہی سے ڈر کر ملاقاتوں میں مسلمانوں کی عادت کے طور پر پیش آویں۔ ہر ایک قسم کی شرارت اور خباثت کو چھوڑ دیں۔ پس اگر ان سات سال میں میری طرف سے خداتعالیٰ کی تائید سے اسلام کی خدمت میں نمایاں اثر ظاہر نہ ہو اور جیسا کہ مسیح علیہ السلام کے ہاتھ سے ادیان باطلہ کا مرجانا ضروری ہے۔ یہ موت جھوٹے دینوں پر میرے ذریعے سے ظہور میں نہ آئے۔ یعنی خداتعالیٰ میرے ہاتھ سے وہ نشان ظاہر نہ کرے جن سے اسلام کا بول بالا ہو اور جس سے ہر ایک طرف سے لوگ اسلام میں داخل ہونا شروع ہو جائیں اور عیسائیت کا باطل معبود فنا ہوجائے اور دنیا اور رنگ نہ پکڑ جائے تو میں خداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے تئیں کاذب خیال کر لوں گا اور خدا جانتا ہے کہ میں کاذب نہیں ہوں۔ یہ سات برس کچھ زیادہ سال نہیں ہیں اور اس قدر انقلاب اس تھوڑی مدت میں ہو جانا انسان کے اختیار میں ہرگز نہیں۔‘‘ (انجام آتھم)
یاد رہے کہ حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی) نے یہ اعلان ۱۸۹۷ء میں کیا تھا۔ لیکن چونکہ مولوی اپنی روش سے باز نہ آئیے۔ اس لئے جماعت احمدیہ کی طاقت بٹ گئی۔
آپ نے لکھا ہے کہ مرزاقادیانی نے ازالہ اوہام میں تحریر کیا ہے کہ آنحضرتﷺ پر ابن مریم کی وفات کی حقیقت ظاہر نہیں ہوئی۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ آپ (مرزاقادیانی) نے تو صرف یہ لکھا ہے کہ: ’’اگر آنحضرتﷺ پر ابن مریم اور دجال کی حقیقت کاملہ بوجہ نہ موجود ہونے کسی نمونے کے موبہ مومنکشف نہ ہوئی ہو اور نہ دجال کے ستر باع کے گدھے کی اصل کیفیت کھلی ہو اور نہ یاجوج، ماجوج کی عمیق تہ تک وحی الٰہی نے اطلاع دی ہو اور نہ دابتہ الارض کی ماہیت بھی ظاہر فرمائی گئی ہو تو کچھ تعجب کی بات نہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ دوم)