کی جگہ ’’من نعمرہ‘‘ لکھ سکتے تھے۔ آپ نے اپنے پرچے میں لکھا ہے کہ: ’’لا یخلقون شیئا وہم یخلقون‘‘ میں پتھر کے بتوں کا تذکرہ ہے۔ حالانکہ ادنیٰ عربی جاننے والا بھی ’’لا یخلقون‘‘ اور ’’ہم‘‘ اور ’’اموات‘‘ کو پڑھنے کے بعد یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ پتھروں کے بتوں کے متعلق ہے۔ نیز ’’وما یشعرون ایان یبعثون‘‘ جو اس آیت کا آخری حصہ ہے اور جس کو ہم پہلے درج کر چکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان معبود ان باطلہ کو تو یہ بھی علم نہیں کہ قیامت کا دن کب آئے گا اور وہ کب اٹھائے جائیں گے۔
سامعین! خدا لگتی کہیں کہ کیا یہ بات پتھروں کے لئے کہی جاسکتی ہے؟ نہیں! ہرگز نہیں!!
آپ نے ’’وان من اہل الکتاب‘‘ سے خواہ مخواہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ حالانکہ اس میں نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے نہ ان کی زندگی کا ذکر ہے۔ نہ جسد خاکی کا ذکر ہے نہ آسمان کا ذکر ہے۔ دعویٰ اتنا بڑا کہ مسیح بجسدہ العنصری آسمان پر زندہ موجود ہیں اور دلیل ایسی بودی اور کمزور کہ دعوے کی کوئی ایک شق بھی اس میں مذکور نہیں۔
آپ نے ہماری پیش کردہ آیت قرآنی ’’میثاق النبیین‘‘ کے بارے میں کہا ہے کہ اس سے تو ختم نبوت ثابت ہوتی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کہاں سے نکلتی ہے۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ جب ختم نبوت کی بحث ہوگی تو انشاء اﷲ اس وقت قدر عافیت معلوم ہو جائے گی۔ فی الحال ہمارے اس استدلال پر غور فرمائیے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس آیت کی رو سے اﷲتعالیٰ کے ساتھ یہ پختہ وعدہ کر چکے ہیں کہ وہ محمد رسول اﷲﷺ کے آنے پر ان پر ایمان بھی لائیں گے اور ان کی مدد بھی کریں گے۔ ورنہ بقول قرآن مجید عہد شکنی کے مرتکب اور فاسق ٹھہریں گے۔ تو اب سوال یہ ہے کہ حضرت رسول کریمﷺ تشریف لائے۔ جنگیں ہوئیں۔ آپ کو ہجرت کرنا پڑی۔ مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ آپﷺ پر ایمان لائے اور نہ آپﷺ کی مدد کی۔ کیا اس لئے کہ وہ مرچکے ہیں یا اس لئے کہ انہوں نے اپنا عہد توڑ دیا۔ جماعت احمدیہ کا دعویٰ یہ ہے کہ بوجوہ وفات پاجانے کے وہ اپنے اس عہد کو اصالۃً پورا نہیں کر سکے۔ لیکن ہمارے مدمقابل کہتے ہیں کہ ہیں تو وہ زندہ مگر عہد شکنی کا ارتکاب کر کے (نعوذ باﷲ! نعوذ باﷲ!!) فاسق قرار پاتے ہیں۔
ہمارے مدمقابل نے اپنے پرچے میں ایک یہ بات پیش کی ہے کہ حضرت مرزاقادیانی کی آمد کے بعد عیسائیوں کی تعداد بڑھ گئی ہے تو پھر مرزاقادیانی کا فیض کیا ہوا؟ ہمیں افسوس ہے