کہ آج سے ایک سوبرس کے گزرنے پر زمین پر کوئی زندہ نہیں رہے گا۔ پس جو شخص خضر اور الیاس کو زندہ جانتا ہے وہ آنحضرتﷺ کی قسم کا مکذب ہے اور ادریس کو اگر آسمان پر زندہ مانیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ وہ آسمان پر ہی مریں گے۔ کیونکہ ان کا دوبارہ زمین پر آنا نصوص سے ثابت نہیں اور آسمان پر مرنا آیت ’’فیہا تموتون‘‘ کے منافی ہے۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۱۲ حاشیہ)
آپ باربار ذکر کرتے ہیں کہ فرشتے زندہ ہیں، شیطان زندہ ہے۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہوں تو کیا ہرج ہے۔ سیدھی طرح یہی کیوں نہیں کہہ دیتے کہ خدا جو زندہ ہے تو پھر مسیح علیہ السلام کے زندہ ہونے میں کیوں شک کیا جائے۔ جب کہ وہ خدا ہی کی طرح خالق بھی تھے۔ مردے بھی زندہ کرتے تھے۔ بیماروں کو بھی اچھا کرتے تھے۔ عالم الغیب بھی تھے اور اس طرح تمام خدائی صفات سے متصف تھے۔ جب اسلام کے نام لیوأ مولویوں کی یہ حالت ہو تو اسلام کے مخالف عیسائیوں سے کیا گلہ ہوسکتا ہے۔ سچ ہے ؎
من از بیگانگاں ہر گز نہ نالم
کہ بامن ہرچہ کرد آں آشنا کرد
ہمارے مدمقابل نے ہماری اس دلیل کا تو جواب نہیں دیا کہ رسول کریمﷺ نے جانے والے مسیح اور آنے والے مسیح کا الگ الگ حلیہ بیان کیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روایت بیان کر دی ہے۔ جس میں عروہ بن مسعودؓ کا ذکر ہے۔ حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ ان کی پیش کردہ روایات پایۂ اعتبار سے ساقط اور ضعیف ہیں۔
ہمارے مدمقابل نے اپنی اس بات کو پھر دہرایا ہے کہ حضرت مرزاقادیانی لکھتے ہیں کہ آپ نے ایک بار مسیح ناصری کے ساتھ ایک ہی پیالے میں گوشت کھایا تھا۔ یہ حوالہ (تذکرہ ص۴۴۱) پر درج ہے۔ (نیا ایڈیشن) مگر اسی (تذکرہ ص۱۵) میں جو حوالہ درج ہے اور ہم اسے پیش کر چکے ہیں۔ اس کو آپ بالکل ہضم کر گئے ہیں۔ اس میں صاف لکھا ہے کہ: ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے اور مسیح علیہ السلام نے ایک ہی برتن میں کھانا کھایا۔‘‘
اور (تذکرہ ص۴۴۱) کے حوالہ میں ہے کہ یہ گوشت میں نے صرف ایک بار کھایا ہے۔
آپ کہتے ہیں کہ قرآن میں ادل بدل نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ آپ نے اپنے سابقہ پرچوں میں ’’انی اخلق لکم من الطین طیراً‘‘ اور ’’ما نعمرہ ننکسہ فی الخلق‘‘ دو آیتیں غلط طور پر درج کی ہیں۔ حالانکہ اگر ہمارے ہی پرچہ کو غور سے پڑھا ہوتا تو ’’ما نعمرہ‘‘