ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
مگر کسی کو یہ فکر نہیں کہ ہم سے کسی کو اذیت تو نہ ہو گی ـ باوجود سخت مشہور ہونے کے لوگوں کی رعایت فرمایا میں جو سخت مشہور ہوں تو وجہ یہ ہے کہ میری غرض صرف یہ ہے کہ لوگ اعمال کی فکر کریں اور لوگوں کی یہ حالت ہے کہ جو لوگ اصلاح بھی کرانا چاہتے ہیں وہ بھی اعمال کا اہتمام نہیں کرتے مگر میں باوجود سخت سمجھے جانے کے اس قدر رعایت کرتا ہوں کہ عین عتاب کے وقت میں بھی مخاطب کی اصلاح کا خیال رکھتا ہوں اور اگر اپنے سے مناسبت نہیں دیکھتا تو دوسرے مصلح کا پتہ تبلا دیتا ہوں تا کہ کسی مسلمان کو نقصان نہ ہو ـ ماہ شوال کے چھ روزوں کا ثواب فرمایا درمختار میں ہے کہ ماہ شوال کے چھ روزے رمضان کے قضا روزوں میں بطور تداخل ادا ہو سکتے ہیں مگر یہ جزئیہ بالکل صحیح نہیں تداخل اس جگہ ہو سکتا ہے جہاں ایک سے دوسرے کا مقصود بھی حاصل ہو جائے مثلا تحتہ المسجد سے مقصود مسجد کا حق ادا کرنا ہے کہ مسجد میں پہنچتے ہی کچھ نماز ادا کرنا چاہیے ـ پس اگر کوئی شخص سنت میں مشغول ہو گیا تو تحیتہ المسجد کی غرض بھی اسی سے پوری ہو جائے گی ـ یہاں تداخل ہو جائے گا بخلاف ستہ شوال کے کہ حدیث شریف میں اس کی غرض یہ وارد ہے کہ من صام رمضان ثم اتبعہ بست من شوال کان کصیام الدھر اور اس کی بنا ، یہ فرمائی ہے کہ صیام شھر بعشرۃ اشھر و سنۃ ایام بشھرین فذلک تمام السنۃ ـ رواہ الدارمی ـ اور ایک حدیث میں یہ بنا ، ان الفاظ میں مذکور ہے ـ من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا رواہ ابن ماجہ ـ اور یہ تب پوری ہو سکتی ہے جب رمضان سمیت چھتیس روزوں کا عدد پورا ہو اور چھتیس کا عدد تداخل میں پورا کیسے ہو گا ـ ہاں اگر علاوہ قضائے رمضان کسی اور واجب کو شوال میں ادا کرے تو پھر شاید تداخل ہو سکے اگر کوئی مانع ثابت نہ ہو اس پر ایک شخص نے کہا کہ اس طرح تو پھر جزئیات فقہیہ میں احتمال غلطی کا رہے گا ـ اس پر فرمایا اگر کسی اور جزی میں بھی ہم کو معلوم ہو جائے کہ حدیث صریح منصوص کے خلاف ہے تو چھوڑ دیں گے ـ اور یہ تقلید کے خلاف نہیں ہے