ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
جہالت کی قید واقعی ہو تو معقولیوں کے نزدیک پھر یہ لازم آ ئے گا کہ کوئی گناہ عمد اور علم سے نہ ہوا کرے ۔ حالانکہ یہ واقع کے خلاف ہے ۔ ان کے نزدیک جو حقیقت علم کی ہے وہ موجود ہوتی ہے تو گناہ ہو جاتے ہیں ۔ معقولیوں کی اصطلاح کے مطابق یہ قید نہ احترازی بن سکتی ہے اور نہ اواقعی ۔ ہاں صوفیوں کے نزدیک بالکل درست ہے ۔ کیونکہ ان کے نزدیک علم جب " اعتقادی جازم مع غلبہ حال ،، کا نام ہے تو جب گناہ کرے گا یا اعتقاد نہ ہو گا ۔ یا جازم نہ ہو گا یا غلبہ حال نہ ہو گا ۔ کوئی گناہ علم سے ہو ہی نہیں سکتا ۔ تو صوفیا کے معنی قرآن میں مںصوص ہیں لوگ خواہ مخواہ صوفیاء کو بد نام کرتے ہیں ۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں قرآن اور حدیث سے کہتے ہیں لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے ۔ اگر غور کریں تو کچھ معلوم ہو جائے ۔ تدبر ، تفکر اور تذکر کی بار بار حق تعالی نے تاکید فرمائی ہے ۔ اور اگر تدبر نہ ہو تو پھر قلب پر قفل لگ جاتا ہے ۔ آیت افلا یتدبرون القران ام علی قلوب اقفالھا تدبر اور قفل میں حصر کر دیا ۔ مشورہ کی حقیقت فرمایا میری عادت مشورہ دینے کی نہیں ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ مشورہ کی حقیقت لوگ سمجھتے نہیں ۔ مشورہ کی حقیقت تو یہ ہے کہ امر مباح دو شقوں کے مفاسد اور مصالح پر نظر کر کے کسی ایک جانب کو ترجیح دینا ۔ مشیر اس کے بعد اپنے جی میں اگر کسی جانب کو راجح پائے تو عمل کرے ۔ عمل تو اپنی رائے پر کرے گا ۔ البتہ مشورہ سے اس کی رائے کو اعانت جو جائے گی ۔ اب عوام مشورہ کو حکم سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ مشورہ اور حکم بڑا فرق ہے ـ سفارش کی حقیقت فرمایا اسی طرح میری عادت سفارش کرنے کی بھی نہیں ہے ۔ کیونکہ آج کل کے عرف میں اس کی بھی حقیقت بدل گئی ہے ۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ ایک شخص کی حاجت دوسرے شخص کے سامنے بدون دباؤ ڈالنے کے پیش کر دینی ۔ تا کہ دوسرا شخص آزادی سے عمل کر سکے ۔ اور سفارش کی وجہ سے مجبور نہ ہو جائے جیسا حضرت بریدہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ میں حضورؐ نے سفارش کی تو حضرت بریدہ نے عرض کیا کہ یہ حکم ہے یا مشورہ ،،