ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
میں اسی کی اصلاح کی ترغیب ہے باقی لطائف کا اہتمام وارد نہیں ہوا وہ از خود درست ہو جاتے ہیں چنانچہ صلح الجسد کلہ وارد بھی ہے ـ سبحان اللہ اس میں کسی قدر سنت کی کامل موافقت ہے ـ اعتکاف اور مسجد کی حقیقت فرمایا رمضان کے عشرہ اخیرہ میں ایک عبادت خاص ہے جس کو اعتکاف کہتے ہیں اس کی حقیقت یہ ہے کہ بلا ضرورت شدید مسجد سے نہ نکلے ـ خواہ مسجد میں سوتا ہی رہے خواہ پڑا رہے البتہ نماز پنجگانہ ادا کر لے اور گناہ سے بچتا رہے ـ اس کے علاوہ کوئی عبادت یا ذکر و اذکار وغیرہ اس کیلئے شرط نہیں ہیں ـ اعتکاف پر جو ثواب موعود ہے وہ اس حالت میں بھی مل جائے گا ـ کیسی عجیب عبادت ہے کہ کرا کرایا کچھ بھی نہیں یعنی کوئی مشقت کا کام نہیں کیا اور ثواب مفت کا ہاتھ آ گیا ـ اس کی عقلی وجہ بیان کرنا ضروری تو نہیں مگر میں تبرعا بیان کرتا ہوں ـ آپ نے مسجد کی حقیقت ہی نہیں سمجھی مسجد کی حقیقت ہے دربار خدا وندی اور آستانہ شاہی اسی واسطے اس کے آداب میں سے ہے کہ بازاروں کی طرح اس میں بلند آوازیں نہ کریں طہارت اور صفائی کو لازم سمجھیں ـ اب اعتکاف کی حقیقت سمجھئے ـ اس کی حقیقت ہوئی دربار خدا وندی میں پڑا رہنا اور ظاہر ہے کہ اگر کسی دنیا دار انسان کے دروازہ پر کتا بھی پڑا رہے تو دو چار دن تو شاید تغافل کرے آخر اس کو روٹی دے دیتا ہے کہ میرے دروازہ پر پڑا ہوا ہے ـ حق تعالی تو ارحم الراحمین ہیں وہ ایسے شخص پر کیوں نہ عنایت فرمائیں گے خوب کہا گیا ہے ؎ خسرو غریب است و گدا افتادہ در کوئے شما باشد کہ از بہر خدا سوئے غریباں بنگری اور حدیث میں اعتکاف کی ایک خاص فضیلت آئی ہے یکف الذنوب و یجری لہ من الحسنات کعامل الحسنات کلھا ( رواہ ابن ماجہ ) پہلے جملے کا مضمون تو ظاہر ہے کہ سب معاصی سے بچنے کا ثواب ملتا ہے کیونکہ واقع میں وہ سب معاصی سے بچا رہا لیکن دوسرے جملے میں یہ سوال ہے کہ جب واقع میں اس نے سب حسنات نہیں کیں تو پھر سب حسنات کا ثواب کیسے ملے گا ـ سو اس حدیث کا مطلب جو میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ حسنات