ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
موت بھی اللہ تعالی کی ایک نعمت ہے فرمایا موت بھی نمعت ہے ـ اگر نہ ہوتی تو لوگ اس کی دعا کیا کرتے ـ انسان کا طبعی تقاضا ہے کہ ایک حالت پر قناعت نہیں کرتا ـ امراء کو عمدہ عمدہ کھانوں میں چین نہیں ہوتا پھر چنے کے ساگ کی خواہش کرتے ہیں ـ ہاں موت میں عقلا گرانی ضرور ہے کہ آ گے چل کر اگر اعمال درست نہیں تو گرفت ہو گی ـ تو اس کا علاج یہ ہے کہ اعمال کی اصلاح کرو ـ اور اگرچہ اعمال کی اصلاح کے بعد بھی گرفت کا احتمال ہوتا ہے ـ مگر اس میں اطمینان بھی ہوتا ہے اور نور بھی ہوتا ہے ـ بلا اصلاح اعمال اطمینان نہیں ہوتا ، ظلمت ہوتی ہے جیسے بیج ڈال کر اطمینان ہوتا ہے کہ کھیت ہو گا اور خطرہ بھی ہوتا ہے کہ شاید کچھ نہ ہو ـ اور بلا بیج ڈالے بھی خطرہ ہوتا ہے مگر اس میں کوئی اطمینان نہیں ـ نری تمنا اور غرور ( دھوکا ) ہے اور فرمایا کہ ابن القیمؒ نے اس حدیث کے جس کا مضمون یہ ہے کہ " موت کے وقت مطلقا ملاقات حق کیلئے حسن ظن رکھو ،، یہ معنی بتائے ہیں کہ " اعمال کی اصلاح کرو ـ حقوق ادا کرو کیونکہ حسن ظن بدون اصلاح اعمال کے ہو ہی نہیں سکتا ،، ـ فرمایا بہت عمدہ تفسیر ہے اور ابن قیمؒ عارف تھے اور ان کے شیخ ابن تیمیہؒ بھی عارف تھے ـ ابن قیمؒ نے ایک کتاب لکھی ہے " مدارج السالکین ،، جو ایک کتاب کی شرح ہے ـ متن نہایت موحش ( وحشت انگیز ) ہے مگر اس کی عمدہ توجیہ کرتے ہیں کوئی دوسرا ہوتا تو مصنف پر کفر کا فتوی لگا دیتا ـ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فن کے واقف تھے اور فرمایا کہ ابن قیمؒ نے ایک کتاب اور لکھی ہے "" الدعاء الکافی ،، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عارف اور صاحب باطن تھے اعمال کی برکت سے دل میں نور پیدا ہو جاتا ہے ـ حق تعالی شانہ ، سے محبت طبعی ہے یا عقلی فرمایا بعض متکلمین نے لکھا ہے کہ حق تعالی سے جو محبت ہوتی ہے وہ محبت عقلی ہے طبعی نہیں ـ کیونکہ طبعی کا دار و مدار مشاہدہ پر ہے اور دنیا میں چونکہ حق تعالی کا مشاہدہ نہیں ہو سکتا اس واسطے حق تعالی سے طبعی محبت نہیں ہوتی ـ صرف عقلی ہوتی ہے ـ فرمایا کہ امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ یہ مقدمہ غلط ہے کہ عشق و محبت کا دار و مدار مشاہدہ پر ہے بلکہ محبت کا دار و مدار مناسبت پر ہے اور مثال یہ دی کہ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ اور امام ابو حنیفہؒ کے ساتھ