ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
جواب اس کا ذرا عربی محاورہ کے سمجھنے پر موقوف ہے اب عربی محاورہ کے مطابق یہ ہے کہ الف کا لفظ عربی زبان میں سب سے زیادہ بڑا عدد ہے ۔ تو مطلب یہ ہو گا کہ جو تمہارے نزدیک سب سے زیادہ بڑا عدد ہے ۔ اس سے بھی بہت بہتر ثواب ہو گا ۔ اگر قرآن مجید اردو میں ہوتا تو یوں فرماتے کہ سنکھ سے بہت بہتر ثواب ہو گا ۔ باقی کوئی یوں خیال کرے کہ بے شمار ہو گا جو شمار ہی نہیں آتا اس کو بوجہ انا عند ظن عبدی بی ۔ ( میں اپنے بندے کے گمان کی طرح ہوں ) اسی طرح ملے گا ۔ باقی اگر کوئی کہے کہ میں اس کو رکھوں گا کہاں ؟ تو وہ رکھنے کی جگہ دیں گے ۔ نیم جاں بستاند و صد جاں دہد آنچہ در و ہمت نیا بند آیاں دہد ( ایک ادھوری سی جان لیکر ہزاروں جانیں عطا فرماتے ہیں جو تمہارے وہم و گمان میں بھی نہیں 12 ) ۔ حق تعالی بندے کے ظن کے مطابق معاملہ فرماتے ہیں اور اوتار راتیں یہ ہیں مثلا بیسواں دن گزار کر جو شام آ ئے گی وہ اکیسویں ہو گی ۔ شریعت میں رات پہلے آتی ہے دن بعد ۔ سوائے حج کی رات کے ۔ وہ حق تعالی نے عوام کے محاورہ کے مطابق مقرر فرمایا ہے ۔ عوام دن کو اول اور رات کو بعد میں خیال کرتے ہیں ۔ وہ بندوں کے ضعف کی کس قدر رعایت فرماتے ہیں کہ کوئی نو ویں دن عرفات میں نہ پہنچ سکے تو رات نویں وہ سمجھے گا جو نواں دن گزر کر آتی ہے ۔ اس کو نویں دن کی طرح حج کا زمانہ مقرر فرما دیا اور یہ میرا خیال ہے کہ لیلۃ القدر میں باقی راتوں سے اور معمول سے زیادہ جاگنا کافی ہے ۔ یہ ضروری نہیں کہ ساری رات جاگے ۔ باقی بہت بہتر عبادت اس میں نفل ہیں ۔ کیونکہ قیام کی فضیلت ہے اور قیام نفل میں ہے ۔ باقی تلاوت اور اذکار بھی کرے ۔ تو صوفیاء کی قید چھوڑ دے ۔ صوفیاء کی قیدیں وہ اور مصلحت کیلئے ہیں ۔ عبادت خالص وہی ہے جو ان سے خالی ہے ۔ صوفیاء بھی جب منتہی ہو جاتے ہیں تو یہ قیدیں ترک کر دیتے ہیں ضربیں وغیرہ نہیں لگاتے ۔ قرآن شریف کا طرز مصنفین کے طرز پر نہیں فرمایا قرآن شریف کا طریق مصنفین کی طرز پر نہیں ہے بلکہ محاورہ کے طریق پر اللہ تعالی نے اتارا ہے ، نہ ہی اس میں اصطلاحی الفاظ کی پابندی ہے ۔ اور اس کو باقی تصانیف کی طرز پر اتارتے ہیں پھر فہم مشکل ہو جاتا ہے مثلا سورہ قیامت میں پہلے قیامت کا ذکر ہے