ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
ادب کے سبب ہمت سوال کی نہ ہوتی تھی بلکہ ان کی یہ خواہش رہتی تھی کہ اعراب آویں اور حضورؐ سے کچھ پوچھیں اور پھر وہ خواہش بھی معاملات و احکام کے دریافت کیلئے تھی نہ کہ کلام کے دقیق مسائل اور اعتراضات کے جواب کے لئے ـ اس باب میں ان کو ہماری طرح خلجان نہ ہوتا تھا ـ حضرت حاجی صاحبؒ کا ارشاد فرمایا حضرت حاجی صاحبؒ نے یہ تعویذ حضرت سید احمد صاحبؒ سے نقل فرمایا اگر منظور داری حاجتش را بر آری ( کسی نے اہل مجلس سے عرض کیا کہ حضرت یہ کلام تو بہت حفیف تصرف سے منظوم بن سکتا ہے ـ اس طرح ؎ خدا وندا اگر منظور داری بفضلت حاجت اور ابر آری ـ فرمایا ہم تو بزرگوں کے کلام میں تصرف کرنا بے ادبی سمجھتے ہیں تم شاعر ہو جو چاہو کرو ـ اور حضرت مولانا گنگوہیؒ سے بھی ایک تعویذ منقول ہے ـ اے اللہ ! میں جانتا نہیں یہ مانتا نہیں ـ یہ تیرا غلام تو جانے اور تیرا کام ـ بعض صوفیاء کا مشہور قول فرمایا بعض صوفیہ کا قول مشہور ہے کہ جنان میں ایک ایسی جنت ہے جس میں نہ حور ہیں نہ قصور ہیں صرف اس میں رب ارنی رب ارنی ہے اور یہ قول صحیح نہیں اگر کشف ہے تب بھی غلط ہے ـ کیونکہ نصوص کے خلاف ہے وہاں تعب نہیں جو اس قول سے لازم آتا ہے غالبا منشا اس قول کا یہ اشباہ ہوا ہے کہ جس طرح دنیا میں وصول کامل نہیں ہوتا وہاں بھی نہ ہو گا اور اس کیلئے اشتیاق لازم ہے مگر اس شخص نے اس فرق کو نہیں سمجھا کہ دنیا میں تو جس درجہ کی استعداد ہوتی ہے اس درجہ کا بھی وصول نہیں ہوتا اس لئے تعب ہوتا ہے اور وہاں یہ نہ ہو گا بلکہ جس درجہ کی استعداد ہو گی اسی درجہ کا وصول ہو کر سوزش اور بیکلی نہ رہے گی ـ گو وصول تام نہ ہو ـ خشیت لوازم عظمت نہیں احقر نے عرض کیا کہ جنت میں حق تعالی کی عظمت سے خشیت تو نہ پیدا ہو گی ـ فرمایا