ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
صرف و جوب بالذات ہے اس لئے ممکنات میں بھی مجرد کے قائل ہوئے ہیں مگر اتنا فرق ہے کہ فلاسفہ نے مجرد کو قدیم بالزمان مانا ہے اور صوفیہ سوائے واجب الوجود کے جملہ مجردات کو حادث بالزمان کہتے ہیں ـ ہس صوفیہ کی تحقیق یہ ہے کہ روح مجرد ہے اور بدن کے ساتھ اس کا تعلق حلول کا نہیں بلکہ محض تدبر کا ہے اور متکلمین روح کو جسم لطیف مانتے ہیں اور اس کا تعلق بدن کے ساتھ سرایت کا مانتے ہیں اور اس کی نسبت بدن کے ساتھ ایسی مانتے ہیں جو جسم تعلیمی کی جسم طبعی سے ہوتی ہے فرق صرف یہ ہے کہ جسم تعلیمی عرض ہے اور روح مجرد ہے ( اس پر احقر نے عرض کیا ان فی الجسد لمضغۃ سے تو جسم صنوبری ہی قلب کا مصداق معلوم ہوتا ہے ) فرمایا تلبس کی وجہ سے جسم صنوبری کو قلب کہا جاتا ہے اور اسی بناء پر اس کو مضغہ کہہ دیا گیا ورنہ یہ سیاہی اور رین جو معاصی کی وجہ سے ہوتا ہے وہ قلب مجرد ہی پر ہوتا ہے ـ حضرت ابو طالب کہنے کا سبب فرمایا میں حضرت ابو طالب کو بلا لفظ حضرت کے ذکر نہیں کرتا ـ صرف تلبس کی وجہ سے جو ان کو حضور پر نور سرور کائناتؐ سے ہے اور اسی تعلق کے سبب حضورؐ کے والدین کے بارے میں گفتگو کرنے کو بہت خطرناک سمجھتا ہوں کیونکہ ایک حدیث میں آیا ہے لا تسبوا الا موات فتؤ ذوا الا حیاء اور ظاہر ہے کہ کسی والدین کو یہ کہنا بد معاش کافر تھے اس سے اولاد کو طبعی طور پر رنج ہوتا ہے ـ اس قاعدہ سے حضورؐ کو بھی رنج ہوتا ہو گا ـ اور قرآن شریف میں ہے ان الذین یؤ ذون اللہ و رسولہ الآیۃ ـ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علیہ الصلوۃ والسلام کے والدین کے بارے میں بلا ضرورت گفتگو کرنا باعث تاذی رسول ہے ـ قرآن شریف ہمارے محاورہ پر نازل ہوا ہے فرمایا مولانا محمد یعقوب صاحبؒ فرماتے تھے کہ لعل قرآن شریف میں اس واسطے آیا ہے کہ قرآن شریف ہمارے محاورہ پر نازل ہوا ہے پس جس جگہ انسان لعل کا لفظ بولتا ہے ایسے ہی مقامات میں اللہ تعالی نے بھی لعل فرمایا ہے اس کی تفصیل یہ ہے ـ مسبباب