لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
|
حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میری پنڈلی یا اپنی پنڈلی کا سخت حصہ پکڑ کر فرمایا تہبند کی یہ جگہ ہے ،اگر یہ نہ ہوسکے تو تھوڑا سا نیچے، یہ بھی نہ ہو تو تہبند کا ٹخنوں سے کوئی تعلق نہیں ۔عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَضَلَةِ سَاقِي، أَوْ سَاقِهِ، فَقَالَ:هَذَا مَوْضِعُ الإِزَارِ، فَإِنْ أَبَيْتَ فَأَسْفَلَ، فَإِنْ أَبَيْتَ فَلَا حَقَّ لِلإِزَارِ فِي الكَعْبَيْنِ۔(ترمذی:1783) حضرت ابن سیرینفرماتے ہیں کہ وہ لوگ آدھی پنڈلی سے اوپر اِزار رکھنے کو ناپسند کیاکرتے تھے ۔عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ:كَانُوا يَكْرَهُونَ الْإِزَارَ فَوْقَ نِصْفِ السَّاقِ۔(ابن ابی شیبہ :24828)آپﷺاور صحابہ کرام کا عَمل نصفِ ساق تک اِزار رکھنے کا تھا : آدھی پنڈلیوں تک اِزار رکھنا سب سے بہترین طریقہ ہے ، اور یہ خود نبی کریمﷺاور آپ کےپیارے جانثار صحابہ کرام کا اختیار کردہ طریقہ ہے ، لہذا اِس بہتر کیا چیز ہوسکتی ہے ۔ ایک شخص کو اِزار لٹکانے پر تنبیہ کرتے ہوئے آپﷺنے اِرشاد فرمایا: کیا تمہارے لئے میری ذات میں اُسوہ (قابلِ تقلید نمونہ)نہیں ہے؟وہ صحابی کہتے ہیں کہ میں نے آپﷺکے اِزار کو دیکھا وہ ٹخنوں سے اوپر اور پنڈلی کی سخت ہڈی سے نیچے(یعنی آدھی پنڈلی تک) تھا۔أَمَا لَكَ فِيَّ أُسْوَةٌ، فَنَظَرْتُ إِلَى إِزَارِهِ فَإِذَا فَوْقَ الْكَعْبَيْنِ، وَتَحْتَ الْعَضَلَةِ۔(مسند احمد :23087) ایک دفعہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ خریم ﷺ اسدی بہت عمدہ آدمی ہے اگر اس کے پٹھے(بال) لمبے نہ ہوتے اور وہ ازارنیچے نہ لٹکاتا یہ بات حضرت خریم عنہ تک پہنچی تو انہوں نے فورا چھری لے کر اپنے بڑھے ہوئے بالوں کو کانوں تک کاٹ دیااور اپنے ازار کو نصف پنڈلی تک اونچا کر دیا۔«نِعْمَ الرَّجُلُ خُرَيْمٌ الْأَسَدِيُّ، لَوْلَا طُولُ جُمَّتِهِ، وَإِسْبَالُ إِزَارِهِ»،فَبَلَغَ ذَلِكَ خُرَيْمًا فَعَجِلَ، فَأَخَذَ شَفْرَةً فَقَطَعَ بِهَا جُمَّتَهُ إِلَى أُذُنَيْهِ، وَرَفَعَ إِزَارَهُ إِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ۔(ابوداؤد:4089) بنو ثقیف کے ایک صحابی کے بارے میں آتا ہے کہ اُنہوں نے اِزار لٹکایا ہوا تھا ، نبی کریمﷺ نے اُنہیں دیکھا تو تیزی سے اُن کے پیچھے گئے اور جاکر اُن کا کپڑا پکڑا اور ارشاد فرمایا :”ارْفَعْ إِزَارَكَ“یعنی اپنا اِزار اُٹھاؤ ، اُنہوں نے کہا یا رسول اللہ ! میرے پاؤں ٹیڑھے ہیں ، چلنے میں گھٹنے ٹکراتے ہیں (اِس لئے میں نے اِس عیب کو چھپانے کی غرض سے یہ کیا