لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
|
اِشتمال الصمّا :اِشتِمالِ صمّا کی مُمانعت : حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دو لباسوں سے منع فرمایا ہے ایک صمّاء اور دوسرے یہ کہ کوئی آدمی دونوں زانوں کو پیٹ سے ملا کر ایک کپڑا پیٹھ کی طرف سے لاتے ہوئے اس طرح باندھے کہ شرم گاہ پر کوئی کپڑا نہ ہو۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ لِبْسَتَيْنِ: الصَّمَّاءِ، وَأَنْ يَحْتَبِيَ الرَّجُلُ بِثَوْبِهِ لَيْسَ عَلَى فَرْجِهِ مِنْهُ شَيْءٌ۔(ترمذی:1758)اِشتِمالِ صمّا کا مطلب اور اُس کی تفسیریں : صمّا لغت میں ٹھوس چیز کو کہتے ہیں ، اصطلاحی اعتبار سے اِشتِمالِ صمّا کپڑے کو اوڑھنے کی ایک مخصوص ہیئت کا نام ہے جس سے نبی کریمﷺنے منع فرمایا ہے ، مُحدّثین اور فقہاء کرام کے نزدیک اس کی دو تفسیریں مشہور ہیں :پہلی تفسیر : ایک ہی کپڑے کو (یعنی اِزار نہ ہو )اپنے جسم پر اِس طرح لپیٹ لینا کہ کہیں سے ہاتھ پاؤں نکالنے کی کوئی جگہ باقی نہ رہے ۔هُوَ أَنْ يتجَّلل الرجلُ بثَوبه وَلَا يَرْفع مِنْهُ جَانِبًا.وَإِنَّمَا قِيلَ لَهَا صَمَّاء، لِأَنَّهُ يَسْد عَلَى يَدَيه ورجْليه المنافذَ كُلَّها، كالصَّخرة الصَّمَّاء الَّتِي لَيْسَ فِيهَا خَرْق وَلَا صَدْع۔(النھایۃ لابن الاثیر :3/54)دوسری تفسیر : جسم پر ایک ہی کپڑے کو اوڑھ لیا جائے ، جبکہ(نیچے کی جانب ) دوسرا کوئی کپڑا نہ ہواو پھرکپڑے کو ایک جانب سے اُٹھاکر کندھے پر رکھ لینا ، اِس طرح کہ ستر کھل جائے ۔هُوَ أَنْ يتغَطَّى بِثَوْبٍ واحِدٍ لَيْسَ عَلَيْهِ غَيرُه، ثُمَّ يرفَعُه مِنْ أحَد جَانِبَيْه فيَضَعه عَلَى منْكبه، فتَنْكَشِف عَوْرَتُهُ۔(النھایۃ لابن الاثیر :3/54)اِشتِمالِ صمّا کا حکم : اِشتمالِ صمّا کی ہیئت میں کپڑا پہننےکی وجہ سے ستر کھل جائے تو یہ حرام ہے اور نماز کی حالت میں ہو تو نماز فاسد ہوجائے گی ۔اور اگر ستر نہ کھلے تب بھی حدیث میں چونکہ اس کی ممانعت آئی ہے لہٰذا مکروہ ہوگا ۔اور پھر مکروہ تحریمی اور تنزیہی دونوں طرح کے اقوال ہیں ، راجح یہ ہے کہ مکروہ تحریمی ہوگا۔(الموسوعة الفقهية الكويتية:4/314)(رد المحتار :1/652)