لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
|
لغت میں : ”إِرْسَالُ شَيْءٍ مِنْ عُلُوٍّ إِلَى سُفْلٍ“۔اوپر سے نیچے کی طرف کسی چیز کو لٹکانا ”اِسبال“کہلاتا ہے ۔(مقاییس اللغۃ :3/129)اصطلاح میں : ”إسْبَالُ الرَّجُلِ إزَارُهُ أَسْفَلَ مِنْ الْكَعْبَيْنِ“۔مرد کے اِزار کا ٹخنوں سے نیچے ہونا ”اِسبال “کہلاتا ہے ۔(عالمگیری :5/333) خلاصہ یہ ہے کہ مرد کے جسم کے کپڑوں میں سے کوئی بھی کپڑا جبکہ وہ نیچے لٹک کر ٹخنوں سے نیچے ہوجائے تو اُسے شرعاً اِسبال کہا جاتا ہے ، جواحادیث کی رو سے مَردوں کےلئے سخت حرام اور ناجائز ہے ، اور یہ کپڑا پہننے کی ناجائز صورت ہے ، جو ہمارے معاشرے میں بکثرت رائج ہے ، جبکہ اِس سے بچنا ضروری ہے ۔اِسبالِ اِزار صرف شلوار میں نہیں : احادیث میں ذکر کردہ اِزار کو ٹخنوں سے نیچے رکھنے کی ممانعت کا حکم صرف اِزار کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ، بلکہ شلوار ، پاجامہ ، پینٹ ، قمیص، جبہ ، عمامہ ، سردی وغیرہ سے بچاؤ کے لئے اوڑھی گئی چادر وغیرہ سب کا یہی حکم ہے کہ اُن کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا جائز نہیں ۔(شرح البخاری لابن بطال :9/81)(عون المعبود:11/104)(بذل المجہود :16/411)(فتح الباری :10/262) جس نے تکبّر کے ساتھ اپنے کپڑے کو کھینچا (یعنی ٹخنوں سے نیچے لٹکایا ) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کی جانب رحمت کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے ۔راوی کہتے ہیں :اس میں اِزار و قمیص سب برابر ہے ، یعنی سب کا یہی حکم ہے کہ اُسے ٹخنوں سے نیچے نہیں لٹکایا جاسکتا۔مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ مَخِيلَةً لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ القِيَامَةِ، فَقُلْتُ لِمُحَارِبٍ: أَذَكَرَ إِزَارَهُ؟ قَالَ: مَا خَصَّ إِزَارًا وَلاَ قَمِيصًا۔(بخاری:5791) حضرت عبد اللہ بن عمر نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں : اِسبال قمیص ، اِزار ، اور عمامہ سب میں ہوتا ہے ، جو شخص تکبّر کے طور پر اُسے ٹخنوں سے نیچے لٹکائے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کی جانب رحمت کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے۔عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الْإِسْبَالُ فِي الْإِزَارِ، وَالْقَمِيصِ، وَالْعِمَامَةِ، مَنْ جَرَّ مِنْهَا شَيْئًا خُيَلَاءَ، لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۔(ابوداؤد :4094)(شعب الایمان :5723)