لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
|
کپڑوں میں تجمّل اور زینت اختیار کرنا جبکہ اُس سے مقصود دکھلاوا اور تکبّر نہ ہو ، بالکل جائز ہے ، بلکہ حیثیت کے ہوتے ہوئے بوسیدہ اور گرے پڑے کپڑے پہننا مناسب بھی نہیں ہے ،نبی کریمﷺنے بعض مواقع پر صحابہ کرام کو اس پر تنبیہ بھی فرمائی ، اور اِرشاد فرمایا: ”فَلْيُرَ عَلَيْكَ مَا رَزَقَكَ اللَّهُ “جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں مال دیا ہے تو وہ اللہ کا دیا ہوا رزق تمہارے جسم پر نظر بھی آنا چاہیئے۔(طبرانی کبیر :19/979)ایک اور روایت میں اِرشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ اپنی نعمت کا اثر بندے پر دیکھیں۔إِنَّ اللَّهَ يُحِبَّ أَنْ يَرَى أَثَرَ نِعْمَتِهِ عَلَى عَبْدِهِ۔(ترمذی:2819) لیکن دوسری جانب آپﷺکا یہ ارشاد بھی ہے :” إِنَّ الْبَذَاذَةَ مِنَ الْإِيمَانِ“بے شک سادگی کو اختیار کرنا ایمان میں سے ہے۔(ابوداؤد:4161) دونوں طرح کی حدیثوں میں یہ تطبیق دی گئی ہے کہ اس میں اصل چیز نیت کا اعتبار ہے ، پس :زینت کو ترک کرنا اور ہلکے درجے کے کپڑے پہننا اگر بخل و کنجوسی کے طور پر ہے یا فقر و زہد کے اظہار اور ریاکاری کے لئے ہے یا لوگوں سے مال بٹورنے اور اپنی جانب متوجہ کرنے لئے ہے تو یقیناً یہ سادگی اور ترکِ زینت مذموم اور قبیح ہے اور اگر واقعۃً زہد اور تواضع کو اختیار کرنے اور اپنی ذات پر دوسروں کو(صدقہ وغیرہ کے ذریعہ ) ترجیح دینے کے لئے ہو تو یقیناً یہ سادگی اور ترکِ زینت محمود اور قابلِ تعریف ہے ۔زینت کو اختیار کرنا اور اوڑھنے پہننے میں عُمدہ لِباس کو اِستعمال کرنا اگر غرور و تکبّر اور اِسراف و شہرت کے لئے ہو تو یقیناً یہ زیب و زینت اختیار کرنا قبیح اور حرام ہے اور اگر واقعۃً اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے اِظہار و شکر کے لئے ہو تو یقیناً یہ زینت کا اختیار کرنا اچھی چیز ہے ۔(اوجز المسالک :16/149)کپڑوں میں سادگی اختیار کرنا : اگرچہ کپڑوں میں زینت اختیار کرنا بشرطیکہ تکبّر و غرور کے طور پر نہ ہو تو جائز بلکہ مندوب ہے جیسا کہ اِس کی تفصیل گزرچکی ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اُس کے مقابلے میں تواضع اختیار کرتے ہوئے اعتدال کے ساتھ سادگی کو اپنانا اعلیٰ اور ارفع درجہ ہے ۔(اوجز المسالک:16/145 ، 146)