لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
|
”کوٹ پتلون وغیرہ پہننا انگریزوں کا قومی شعار ہے لہٰذا اس کا پہننا مکروہ ہے اور اگر تشبّہ کی بھی نیت ہو تو حرام ہے“ ۔ (امداد الاحکام :4/341) حضرت مولانا یوسف لُدھیانوی شہید فرماتے ہیں : ”پینٹ شرٹ پہننا مکروہ تحریمی ہے “۔(آپ کے مسائل اور اُن کا حل :8/371) لیکن اب چونکہ مسلمانوں میں بھی پینٹ کا رَواج کثرت سے ہوگیا ہے اور اتنی کَثرت سے یہ پہنا جانے لگا ہے کہ تشبّہ اور کافروں کا شعار ہونے کا معنی باقی نہیں رہا ۔ چنانچہ حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی فرماتے ہیں :کوٹ پتلون ہندوستان میں پہننا حرام تو نہیں رہا البتہ صلحاء کا شعار نہیں ، اس سے بچنا چاہیئے ۔(فتاویٰ محمودیہ :19/260) لیکن یہ بات بھی اچھی طرح واضح رہنی چاہیئے کہ پینٹ میں دوسری خرابیاں ایسی پائی جاتی ہیں جن سے اجتناب کرنا ضروری ہے اور اگراُن سے نہ بچا جائے تب بھی اس کا پہننا درست نہیں ہوگا ۔پہلی خرابی : پائنچوں کا ٹخنوں سے نیچے ہونا : یہ ایسی خرابی ہے جو پینٹ پہننے والوں کے اندر بکثرت پائی جاتی ہے اور شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو پینٹ پہن کر بھی اِس گناہ کبیرہ سے اجتناب کرتا ہو ، حالانکہ یہ ایسا گناہ ہے جس کی احادیث طیبہ میں بڑی سخت وعیدیں آئی ہیں جس کو ”اِسبالِ اِزار کی ممانعت اور اُس کی وعیدیں “کے عُنوان کے تحت ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔دوسری خرابی : پینٹ کا چست ہونا : عموماً پینٹوں میں انسان کے ستر کے اعضاء نمایاں ہوتے ہیں اور بالخصوص جبکہ اوپر شرٹ پہننے کی وجہ سے قمیص کا پچھلا دامن بھی نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اور بھی زیادہ پے پردگی اور عُریانی کا سماں ہوتا ہے ، حالانکہ قرآن کریم میں لِباس کے بنیادی مقاصد میں ستر پوشی کو ذکر کیا گیا ہے ، ستر پوشی کا فائدہ ہی اگر لِباس میں حاصل نہ ہو تو اُسے کہاں شرعی لِباس کہہ سکتے ہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ :