لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
نبی کریمﷺسے بہت سے مواقع پر حضرات صحابہ کرام کو ٹخنوں سے نیچے اِزار رکھنے پر تنبیہ کرنا ثابت ہے ، حالانکہ صحابہ کرام کے اندر تکبّر نہ تھا اور نہ ہی اُنہوں نے تکبّر کے طور پر کیا تھا ، لیکن پھر بھی آپﷺاُنہیں اِزار اونچا رکھنے کی تلقین کیا کرتے تھے ، جیساکہ حضرت عبد اللہ بن عمر کے بارے میں آتا ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے مجھے ایک قبطی (قبطیوں کا تیار کردہ )کپڑا پہنایا اور حضرت اُسامہ کو بھی ایک دھاری دار جوڑا پہنایا ۔ آپﷺنے مجھے دیکھا کہ میں نے کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکایا ہوا ہے ، آپﷺمیرے پاس تشریف لائے اور مجھے کندھوں سے پکڑ کر اِرشاد فرمایا :اے ابن ِ عمر ! کپڑوں کا جوبھی حصہ زمین کو لگتا ہے وہ جہنم کی آگ میں جلے گا ۔كَسَانِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبْطِيَّةً، وَكَسَا أُسَامَةَ حُلَّةً سِيَرَاءَ قَالَ: فَنَظَرَ فَرَآنِي قَدْ أَسْبَلْتُ، فَجَاءَ فَأَخَذَ بِمَنْكِبِي وَقَالَ:يَا ابْنَ عُمَرَ، كُلُّ شَيْءٍ مَسَّ الْأَرْضَ مِنَ الثِّيَابِ فَفِي النَّارِ۔(مسند احمد :5727) بعض مواقع پر تو نبی کریمﷺکے تنبیہ کرنے پر صحابہ کرام نے اپنا عُذرپاؤں میں عیب ہونا بھی پیش کیا ، لیکن آپﷺنے پھر بھی اُنہیں اِزار اونچا کرنے ہی کی تعلیم دی ۔ چنانچہ بنو ثقیف کے ایک صحابی کے بارے میں آتا ہے کہ اُنہوں نے اِزار لٹکایا ہوا تھا ، نبی کریمﷺ نے اُنہیں دیکھا تو تیزی سے اُن کے پیچھے گئے اور جاکر اُس کا کپڑا پکڑ کر ارشاد فرمایا :”ارْفَعْ إِزَارَكَ“، اُنہوں نے کہا یا رسول اللہ ! میرے پاؤں ٹیڑھے ہیں ، چلنے میں گھٹنے ٹکراتے ہیں (اِس لئے میں نے اِس عیب کو چھپانے کی غرض سے یہ کیا ہے )آپﷺنے ارشاد فرمایا :”كُلُّ خَلْقِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ حَسَنٌ “اللہ تعالیٰ کی ہر خلقت خوبصورت ہے (اِس لئے اِس عیب کو چھپانے کی ضرورت نہیں ، تم اپنا اِزار اونچا ہی رکھو ۔ راوی کہتے ہیں کہ اُس کے بعد اُن صحابی کا یہ عالَم تھا کہ ہمیشہ اُن کا اِزار آدھی پنڈلیوں تک ہی نظر آتا تھا ۔(مسند احمد :19472)ایک اور روایت میں ہے کہ آپﷺنے یہ جواب دیا :”ذَلِكَ أَقْبَحُ مِمَّا بِسَاقِكَ“یہ اِزار کو لٹکا نا تواُس سے بھی زیادہ بُرا ہے جو تمہارے پنڈلیوں کو لاحق ہے ۔(المطالب العالیۃ بزوائد المسانید الثمانیۃ :2216) قابلِ غور بات یہ ہے کہ اگر واقعی اِسبالِ اِزار صرف تکبّر ہی کی وجہ سے ممنوع تھا تو نبی کریمﷺکو اُن کو اِس قدر تاکید کرنے کی کیا ضرورت تھی ، بالخصوص جبکہ اُن کی مجبوری بھی ایک بڑی مجبوری تھی ، لہٰذا اِس کے سوا کچھ نہیں کہ جاسکتا کہ اِسبالِ اِزار مطلقاً ممنوع ہے ، اُس کی ممانعت کے لئے تکبّر کی قید کوئی قیدِ واقعی نہیں ۔(تکملہ فتح الملہم :4/107)﴿پانچویں دلیل ﴾