لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
|
حضرت ابو کبشہ انماری فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام کی ٹوپیاں سروں سے ملی ہوئی تھیں (اونچی نہیں تھیں )یا آستینیں کشادہ ہوتی تھیں(تنگ نہیں ہوتی تھیں ) ۔أَبُوكَبْشَةَ الأَنْمَارِيَّ، يَقُولُ:كَانَتْ كِمَامُ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُطْحًا۔(ترمذی:1782) فائدہ :……كِمَامٌ اگر کمّۃکی جمع ہو تو اِس کا معنی ”گول ٹوپی“ کے ہیں ، اور اِس صورت میں بُطْحًا کا معنی ”چپکی ہوئی“ کے کیے جائیں گے ، اور مطلب یہ ہوگا ” ٹوپیاں سروں سے چپکی ہوتی تھیں اونچی نہیں ہوتی تھیں “۔ اور اگر كِمَامُ جمع ہو کُمٌّ کی تو اس کا معنی ”آستین“ کے آتے ہیں ۔اور اِس صورت میں بُطْحًا کا معنی ”چوڑی اور کشادہ “کے ہوں گےاور مطلب یہ ہوگا ”آستینیں چوڑی اور کشادہ ہوتی تھیں ، تنگ نہیں ہوتی تھی “۔(تحفۃ الالمعی :5/106)آستین کا تنگ ہونا : حضرت مغیرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رومی جبہ پہنا جس کی آستینیں تنگ تھیں ۔عَنْ عُرْوَةَ بْنِ المُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ،عَنْ أَبِيهِ،أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَبِسَ جُبَّةً رُومِيَّةً ضَيِّقَةَ الكُمَّيْنِ۔(ترمذی:1768)انْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَاجَتِهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ، فَتَلَقَّيْتُهُ بِمَاءٍ، فَتَوَضَّأَ، وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ شَأْمِيَّةٌ، فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ، فَذَهَبَ يُخْرِجُ يَدَيْهِ مِنْ كُمَّيْهِ، فَكَانَا ضَيِّقَيْنِ، فَأَخْرَجَ يَدَيْهِ مِنْ تَحْتِ الجُبَّةِ فَغَسَلَهُمَا، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ وَعَلَى خُفَّيْهِ۔(بخاری:5798)سَرَوایل : سَراویل شلوار کو کہا جاتا ہے ،جو در اصل اِزاریعنی تہہ بند ہی کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے ، پہلے لوگ اِزار (تہہ بند )اِستعمال کرتے تھے ، پھر اس کی جگہ شلوار آگئی ، عہدِ نبوی میں بھی ”اِزار “ یعنی تہہ بند پہننے کا رَواج تھا ۔نبی کریمﷺ سے سَرَاویل خریدنے کا ثبوت : نبی کریمﷺسے سَراویل کا خریدنا ثابت ہے ۔چنانچہ روایت میں ہے :