لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
|
اِس کے علاوہ شرعی لِباس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اُس لِباس میں کوئی محظورِ شرعی یعنی شرعی ممانعت کا اِرتِکاب بھی لازم نہ آتا ہو ۔ لِباس سے متعلّق شرعی ممنوعات کا بیان ان شاء اللہ آگے تفصیل سے آئے گا ، فی الحال یہاں اجمالی طور پر لباسِ شرعی کی صفات کو ملاحظہ فرمائیں :لِباسِ شرعی کے اوصاف : شریعت نے جس لِباس کو انسان کے لئے منتخب اور پسند کیا ہے اُس کے اوصاف مندرجہ ذیل ہیں :پہلا وصف — ساتِر ہو : یعنی ایسا لِباس ہونا چاہیئے جس میں ستر پوشی کا مکمل فائدہ حاصل ہو،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں لِباس کے مقاصد بیان کرتے ہوئے سب سے پہلا مقصد ”ستر پوشی“ بیان فرمایا۔ کقولہٖ تعالیٰ :” يُوَارِي سَوْآتِكُمْ “۔(الاعراف :26) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لِباس کا سب سے اہم اور بنیادی مقصد ”ستر کا چھپانا “ہےاوریہ ایسا اہم حکم ہے کہ اِسلام لانے کے بعد نماز روزے و غیرہ سے بھی اس حکم کو مقدّم کرنا ضروری ہے ۔(معارف القرآن :3/534) لِباس کے ساتِر ہونے کے لئے ضروری ہے کہ : کپڑا مکمل اعضاءِ ستر پر حاوی ہو۔ ایسا نہ ہو کہ اعضاءِ ستر ہی نہ چُھپ سکیں ۔ کپڑا باریک نہ ہو ۔ ایسا نہ ہو کہ کپڑ پہننے کے باوجود بھی جسم یا بال نظر آرہے ہوں ۔ کپڑا ڈھیلا ڈھالا ہو ۔ ایسا نہ ہو کہ کپڑوں تنگ اور چست ہونے کی وجہ سے جسم کا حجم واضح ہورہا ہو ۔ عموماً دیکھا جائے تو ستر کے اعتبار سے مذکورہ بالا تینوں کوتاہیوں میں سے ہی کوئی نہ کوئی کوتاہی ضرور پائی جاتی ہے، یا تو کپڑاساتِر ہی نہیں ہوتا ، یا باریک ہونے کی وجہ سے ستر کو چھپاتا نہیں ہے اور یا چست ہونے کی وجہ سے برہنگی کا سماں پیدا کررہا ہوتا ہے،آجکل یہ تینوں صورتیں لِباس میں بکثرت اپنائی جاچکی ہیں اور مزید ان میں نئے نئے فیشن نکلتے ہی چلے جارہے ہیں ۔دوسرا وصف — بے ڈھنگا نہ ہو : لِباس میں ستر پوشی کے ساتھ ساتھ کسی قدر زینت اور آرائش بھی مقصود ہے ، یہی وجہ کہ قرآن کریم نے لِباس کے بنیادی مقاصد کو ذکر کرتے ہوئے ”رِيشًا “ بھی ذکر کیا ہے جس کا مطلب جمال اور زینت ہے ۔نیز ” خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ