لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
|
دوسری صورت ……کبھی کپڑا تو صحیح ہوتا ہے ، لیکن اُس کے پہننے کا طریقہ غلط اپنایا جاتا ہے ۔جیسے : مَردوں کیلئے ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا، عورتوں کے لئے کلائی ، پنڈلی ، سر کے بال کھولنا ۔ تیسری صورت ……کپڑا بھی صحیح اور طریقہ بھی درست ہوتاہے لیکن اُس میں قصد اور نیت غلط ہوتی ہے ۔جیسے شہرت اور ریاکاری کے طور پر لِباس پہننا ۔ ذیل میں کپڑوں کی ناجائز صورتوں کو تفصیل سے ذکر کیا جارہا ہے :پہلی صورت : کپڑوں میں ستر پوشی کا نہ ہونا : اللہ تعالیٰ نے لِباس کا اصل مقصد ”ستر پوشی “بیان کیا ہے ، پس ایسے کپڑے جنہیں پہننے کے باوجود بھی انسان کے ستر کے اعضاء نہ چھپتے ہوں اُن کو شرعی لِباس نہیں کہا جاسکتا ، اگرچہ وہ لِباس دیکھنے میں کتنا ہی خوبصورت اور اور قیمت میں کتنا مہنگا ہی کیوں نہ ہو ، اِس لئے کہ اُس میں لِباس کا اصل مقصد ہی حاصل نہیں ہوتا ۔ (تکملہ فتح الملہم :4/77)اعضاء ِ ستر : مَرد کا ستر ناف سے لے کربشمول گھٹنے تک ہے جبکہ عورت کے لئے ہاتھ ، پاؤں اور چہرے کے علاوہ سارا بدن ستر قرار دیا گیا ہے ۔(ردّ المحتار :1/404 ، 405)ستر پوشی میں تین اہم قابلِ لحاظ امور : کپڑوں کے ساتِر ہونے(ستر کو چھپانے )کے لئے تین چیزوں کی رعایت بہت ضروری ہے، ان کے بغیر کپڑا ساتِر نہیں ہوتا :پہلی چیز — مُحیط ہو : یعنی کپڑے کے لئے اعضاءِ ستر کا اچھی طرح اِحاطہ کرنا ضروری ہے ، اِس طرح کہ ستر کا کوئی حصہ کھلا نہ رہ جائے ، کیونکہ بعض اوقات کپڑا اِس قدر چھوٹا اور مختصرسا ہوتا ہے کہ اُسے پہننے کے باوجود بھی ستر کھلا رہ جاتا ہے ، ایسے کپڑے میں ”مُحیط“ ہونے کی صفت نہیں پائی جاتی ، کیونکہ وہ ستر کا مکمل اِحاطہ نہیں کرتا ، لہٰذااُس کا پہننا جائز نہیں ۔دوسری چیز — رقیق نہ ہو : یعنی اس قدر رقیق اور باریک نہ ہو کہ پہننے کے بعد بھی جسم جھلکتا ہو۔یہ بھی کپڑے کا شرعی طور پر ایک بہت بڑا عیب ہے جس کی وجہ سے انسان کپڑا پہننے کے باوجود برہنہ ہوتا ہے ۔