لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
|
مطلقاً ممنوع ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اِزار کو لٹکاکر چلنے میں تکبّر کا غالب امکان پایا جاتا ہے ۔(فتح الباری :10/264) اور چونکہ تکبّر ایک مخفی اور پوشیدہ مَرض ہے ، اس کا انسان کو احساس بھی نہیں ہوپاتا ، بہت سے تکبّر میں مبتلاء لوگوں کو اپنے مَرض کا اِدراک ہی نہیں ہوتا اور وہ بزعمِ خویش خود کو ایک متواضع انسان سمجھ رہے ہوتے ہیں ، اِس لئے حکم کا مَدار سبب پر ہی رکھ دیا گیا ہے، خواہ علّت یعنی تکبّر پایا جائے یا نہیں ، اور یہ ایسا ہے جیسا کہ سفر میں قصر کا حکم مطلقاً ہے ، اگر چہ اُس کا سبب ”مشقّت“ نہ بھی پایا جائے ، اِسی طرح نومِ غالب (ٹیک لگا کر سونا ) مطلقاً وضو کے ٹوٹنے کا سبب ہے ،اگرچہ ریح کا خروج نہ بھی پایا جائے ، اور اس کی شریعت میں بہت سی مثالیں ہیں ، پس مناسب یہی ہے کہ یہاں ”جَرِّ اِزار“ کے مسئلہ میں بھی مطلقاً ممانعت کا حکم لگایا جائے ، اگرچہ تکبّر نہ بھی پایا جائے ۔(تکملہ فتح الملہم :4/107)حضرت ابوبکر صدیقکے واقعہ سے اِستدلال کا جواب : حضرت ابوبکر صدیقکے واقعہ سے اِستدلال کرنا درست نہیں ، اِس لئے کہ : حضرت ابوبکر صدیقکا جسم نحیف تھا اور یہ کمزوری کی وجہ سے ہوتا تھا ۔(فتح الباری :10/255) صدیق اکبر قصداً یہ نہیں کیا کرتے تھے بلکہ غفلت میں غیر اختیاری طور پر ہوجاتا تھا ۔(فتح الباری :10/255) حضرت ابوبکر صدیقکا یہ فعل کبھی کبھی ہوتا تھا ، مستقل نہیں ۔(فتح الباری :10/255) جب بھی احساس ہوجاتا تو فوراً ااِزار کو اُٹھا لیا کرتے تھے ، چھوڑ نہیں دیتے تھے ۔(فتح الباری :10/255) اُنہیں نبوّت کی سچی زبان سے اِس بات کی تصدیق ہوگئی تھی کہ اُن کے اندر تکبّر نہیں ہے۔(بخاری: 3665) آج کل اِزار لٹکانے والوں کے اندر اِن تمام شرائط کی کہاں رعایت پائی جاتی ہے ، اور اگر دیگر شرائط پائی بھی جائیں تو نبوّت کی سچی زبان کی تصدیق کہاں سے لائیں گے کہ واقعۃً تکبّر نہیں ہے ۔پس لامحالہ یہی کہا جائے گا کہ حضرت ابوبکر صدیق کے واقعہ اور عمل سے اِستدلال کرنا درست نہیں ۔اِسبالِ اِزار کی ممانعت اور اُس کی وعیدیں : ٹخنوں سے نیچے پائنچے رکھنا ایسا گناہ بے لذت ہے کہ جس میں لذت کوئی نہیں لیکن عذاب اور وعیدیں بڑی سخت ہیں ، چند وعیدیں ذکر کی جارہی ہیں :