لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
|
”ان دو خرابیوں کی وجہ سے پینٹ پہننا جائز نہیں، لیکن اگر کوئی شخص اِس بات کا اہتمام کرے کہ وہ پتلون چست نہ ہو ، ڈھیلی ڈھالی ہو اور اِس بات کا اہتمام کرے کہ پتلون ٹخنوں سے بھی نیچے نہ ہو تو ایسی پتلون پہننا فی نفسہٖ مباح ہے ، لیکن پھر بھی اس کا پہننا اچھا نہیں اور کراہت سے خالی نہیں “۔ (اصلاحی خطبات :5/294)عورتوں کے لئے پینٹ شرٹ پہننا : اوپر جو کچھ پینٹ کے بارے میں تفصیل ذکر کی گئی ہے وہ مَردوں کے حوالے سے تھی ، عورتوں کے لئے پینٹ پہننا جائز نہیں ، اِس لئے کہ اِس میں کافروں کے ساتھ مشابہت کا معنی پایا جاتا ہے، مَردوں کے کپڑوں کے ساتھ بھی مشابہت پائی جاتی ہے ، جو حدیث کی رو سے موجب لعنت ہے ، مَردوں کے بنسبت عورتوں میں یہ لِباس اور بھی زیادہ بے شرمی ، بے حجابی ، بے ستری اور عُریانی کا باعث ہے ، اِس لئے عورتوں کو بہر حال اس سے اجتناب کرنا چاہیئے ۔ واضح رہے کہ آج کل جو چوڑی دار پاجامے چلے ہوئے ہیں اُن میں اور پینٹ پہننے میں کوئی خاص فرق نہیں ہے ، وہ بھی پہن کر عُریانی اور برہنگی کا ایسا سماں پیدا ہوتا ہے ، جس کی وضاحت کی بھی حاجت نہیں ہے۔کالر والی قمیص پہننا : مولانا ظفر احمد تھانوی نے فرماتے ہیں:بے شک کالر لگانا مشابہت بالنصاریٰ (عیسائیوں کے ساتھ مشابہت )میں داخل ہے ، اور ناجائز ہے ۔(امداد الاحکام :4/335) حضرت مولانا یوسف لُدھیانوی شہید فرماتے ہیں : کالر لگانا انگریزوں کا شعار ہے، مسلمانوں کو اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔(آپ کے مسائل اور اُن کا حل :8/370) لیکن اب مسلمانوں میں اس کا بکثرت رَواج ہوجانے کی وجہ سے یہ کافروں کا شعار تو باقی نہیں رہا ، لیکن اب بھی اس سے اجتناب ہی کرنا بہتر ہے ، اِس لئے کہ یہ صلحاء کے لِباس کا طریقہ نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ امّت کے علماء ، صلحاء اور متقی و پرہیز گار لوگ ایسے کالَر کا استعمال نہیں کرتے ، وہ شیروانی کالَر استعمال کرتے ہیں ، اِس لئے اُنہی کے طریقے کو اپنانا چاہیئے ، تاکہ بروزِ قیامت صلحاء کے ساتھ حشر ہو ۔اللھم احشرنا فی زمرتھم ۔