لباس کے اسلامی آداب و مسائل |
|
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭لِباس کےشرعی اوصاف ،اقسام اورمقاصد ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭لِباس کا معنی :لغوی اعتبار سے : لِباس لغت میں اُس چیز کو کہا جاتا ہےجو پہنی جائے ، اور اِس کو” لِباس“ ، ”مَلْبَس “ اور ”لَبُوسٌ“ بھی کہتے ہیں، اِس کی جمع ”ألبِسَةٌ“ اور” لُبُسٌ“ آتی ہے ۔(المفردات للاصفہانی :1/734)(مختار الصحاح :1/278) (لَبِسَ)……سمع کے باب سے کپڑا پہننے کے معنی آتے ہیں۔ (لَبَسَ)…… نصر اور ضرب کے باب سے اس کامعنی مشتبہ کردینے، شبہ میں ڈالدینےکے آتے ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے :﴿وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِمْ مَا يَلْبِسُونَ﴾﴿وَلا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْباطِلِ﴾(اوجز المسالک :16/145)(مصباح اللغات)اصطلاحی اعتبار سے : شرعاً لِباس اُسے کہتے ہیں جو انسان کے ستر کے اعضاء کو اچھی طرح چھپادے، اور یہی وہ حد ہے جس کو کپڑوں کی فرض مقدار کہا جاتا ہے ۔هُوَ مَا يَسْتُرُ الْعَوْرَةَ۔(رد المحتار :6/351) قرآن کریم کی رو سے بھی لباس کی یہی تعریف معلوم ہوتی ہے ، اِس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے لباس کے نازل کرنے کے جو مقاصد بیان کیے ہیں اُن میں سب سے پہلا اور بنیادی مقصد یہی ذکر کیا ہے ”يُوَارِي سَوْآتِكُمْ “(الاعراف :26)کہ وہ تمہارے ستر کی جگہوں کو چھپاتا ہے ۔ اِس سے معلوم ہوا کہ شرعاً لِباس صرف اُسی کو کہا جاسکتا ہے جو مذکورہ صفت کا حامل ہو، اگر کوئی لِباس اِس صفت سے متصف نہ ہو اور اُسے پہننے کے باوجود بھی اعضاء ِ ستر کھلے رہتے ہوں ، یا کپڑوں کے باریک یا چست ہونے کی وجہ سے واضح اور نمایاں ہوتے ہوں تو وہ شرعاً لباس کہلانے کا مستحق نہیں ۔